عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال،سپریم کورٹ نے کئی نیب ترامیم کالعدم قرار دے دیں

15  ستمبر‬‮  2023

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کئی شقیں کالعدم قرار دے دیںاو رعوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال کر دیئے ۔ جمعہ کو چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ پر مشتمل 3 رکنی خصوصی بینچ نے کیس کی سماعت کی ۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے 2022 میں اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف کی زیر قیادت سابق حکومت کی متعارف کردہ نیب ترامیم کو چیلنج کیا گیا تھا۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے اپنی مدت ملازمت کے آخری روز اس کیس کا فیصلہ سنایا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن نے عمران خان کی درخواست قابل سماعت قرار دی جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔سپریم کورٹ کی جانب سے نیب ترامیم کیس کا مختصر فیصلہ سنایا گیا ہے جس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست کو منظور کر تے ہوئے عدالت عظمی نے پی ڈی ایم کی حکومت کی جانب سے کی گئی بعض ترامیم کو آئین کے منافی قرار دے کر کالعدم کردیا۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال کردیے جبکہ نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کے کرپشن کیسز کی تحقیقات کی اجازت دے دی گئی ہے۔

فیصلے کے مطابق صرف کیسز نہیں، انکوائریز اور انویسٹی گیشنز بھی بحال کردی گئیں ، فیصلے میں نیب عدالتوں سے ترمیم کے بعد کالعدم قرار دیئے گئے کیسسز بھی بحال کردیے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ کرپشن کے ختم کیے گئے تمام مقدمات کو احتساب عدالتوں میں ایک ہفتے کے اندر دوبارہ لگایا جائے۔عدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں سروس آف پاکستان کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کی شق بحال رکھی ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ کالعدم قرار دی شقوں کے تحت نیب قانون کے تحت کارروائی کرے، آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی، پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔فیصلے میں احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دی گئی ہیں۔سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کی 10 میں سے 9 ترامیم کالعدم قرار دی ہیں اور عدالت نے نیب کو 7 دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں کو بھیجنے کا حکم دیا ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ نیب ترامیم سے مفاد عامہ کے آئین میں درج حقوق متاثر ہوئے، نیب ترامیم کے تحت بند کی گئی تمام تحقیقات اور انکوائریز بحال کی جائیں۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں نیب ترامیم کے ماضی کے اطلاق کی شق بھی کالعدم قرار دی، نیب ترامیم 2022 میں چیئرمین نیب کے تقررکا اختیار قومی اسمبلی اور سینیٹ کو دیا گیا تھا۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد چیئرمین نیب کی 4 سالہ مدت بھی بحال ہو گئی، نیب ترامیم میں چیئرمین نیب کی مدت کو 3 سال کر دیا گیا تھا۔سپریم کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر 53 سماعتیں کیں۔

قبل ازیں جمعہ کی صبح سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ نیب ترامیم کیس کا محفوظ فیصلہ دوپہر 12 بج کر 15 منٹ یا عدالت کی سہولت کے مطابق بعد میں کسی بھی وقت سنایا جائے گا۔5 ستمبر کو ہونے والی ساعت کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ میری ریٹائرمنٹ قریب ہے، ریٹائرمنٹ سے قبل کیس کا مختصر اور بہتر فیصلہ سنائیں گے۔واضح رہے کہ جون 2022 میں عمران خان نے قومی احتساب بیورو (نیب)آرڈیننس میں نیشنل اکانٹیبلٹی بیورو (سیکنڈ امینڈمنٹ)ایکٹ 2022 کے تحت کی گئی ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

کیس کی سماعتوں کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے سپریم کورٹ کے معطل قانون (پریکٹس اینڈ پروسیجر)کے معاملے کا حوالہ دیتے ہوئے بار بار کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے پر زور دیا تھا تاہم چیف جسٹس نے اس کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ ان کی ریٹائرمنٹ قریب ہے اور یہ معاملہ کافی عرصے سے عدالت کے سامنے زیر التوا ہے۔ایک سماعت کے دوران جسٹس سید منصور علی شاہ نے یہ ریمارکس بھی دیے تھے کہ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ زور لگا لگا کر تھک گئے کہ نیب ترامیم آرڈیننس (این اے او)میں غلطی نکلے لیکن مل نہیں رہی۔انہوں نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ترمیم بعض سیاستدانوں اور ان کے خاندان کے افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی ہیں، تو اس کا واحد دستیاب علاج یہ ہے کہ انہیں انتخابات میں مسترد کر دیا جائے اور نیب قوانین کو بہتر بنانے کی ترامیم لانے کے لیے نئی پارلیمنٹ کا انتخاب کیا جائے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے تھے کہ انتخابات قریب ہیں، ایک ہی آپشن ہے کہ نئی پارلیمنٹ کا انتظار کیا جائے، جو قانون کا جائزہ لے اور بہتری لائے، عدلیہ اور پارلیمنٹ کو اپنے اپنے کام کرنے دیں، آئین کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک جمہوریت کو چلنے دینا ہے۔خیال رہے کہ جون 2022 میں مسلم لیگ (ن)کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں تاہم صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی جس کے بعد بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔نیب (دوسری ترمیم)بل 2021 میں کہا گیا کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائیگا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔بل میں کہا گیا کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔26 جون کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے نیب آرڈیننس میں موجودہ مخلوط حکومت کی جانب سے کی گئیں ترامیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا، خواجہ حارث کے توسط سے دائر نیب ترامیم کے خلاف آرٹیکل 184/3 کی درخواست تیار کی گئی، درخواست میں وفاق اور نیب کو فریق بنایا گیا۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ نیب قانون کے سیکشن 2، 4، 5، 6، 25، 26، 14، 15، 21، 23 میں کی ترامیم آئین کے منافی ہیں، نیب قانون میں یہ ترامیم آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19 اے, 24, 25 کے بنیادی حقوق کے برعکس ہیں، عدالت سے استدعا ہے کہ نیب قانون میں کی گئیں ان تمام ترامیم کو کالعدم قرار دیا جائے۔عمران خان کی جانب سے دائر کی گئی مذکورہ درخواست کو عدالت عظمی کے رجسٹرار آفس نے اعتراض لگا کر واپس بھیج دیا تھا تاہم 7 جولائی کو سپریم کورٹ نے یہ درخواست سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دیا بعد ازاں درخواست پر سماعت کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔

موضوعات:



کالم



کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟


فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…