اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جبکہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اب سوموٹو نہیں لیتے، میری ریٹائرمنٹ قریب ہے، ریٹائرمنٹ سے قبل شارٹ اور سویٹ فیصلہ دے دیں گے۔
پیر کو چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی ۔جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ اس بینچ کا حصہ ہیں۔دور ان سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل کہاں ہیں؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل بیرونِ ملک ہیں، ان کا جواب جمع کرا دوں گا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر اٹارنی جنرل نے نہیں آنا تھا تو عدالت کو بتا دیتے، اٹارنی جنرل کے نہ آنے کا معلوم ہوتا تو معمول کے مقدمات کی سماعت کرتے، ان کی وجہ سے صبح ساڑھے 9 بجے کیس مقرر کیا تھا۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ تحریری گزارشات عدالت کو جمع کروا دی ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے نیب کی رپورٹ پڑھی ہے؟ نیب نے مئی تک واپس ہونے والے ریفرنسز کی وجوہات بتائی ہیں، ریفرنس واپسی کی وجوہات سے اندازہ ہوتا ہے کہ قانون کا جھکائو کس جانب ہے، مئی تک کن شخصیات کے ریفرنس واپس ہوئے سب ریکارڈ پر آ چکا ہے، نیب قانون کے سیکشن 23 میں ایک ترمیم مئی دوسری جون میں آئی، مئی سے پہلے واپس ہونے والے ریفرنس آج تک نیب کے پاس ہی موجود ہیں، نیب کی جانب سے ان سوالات کے جواب کون دے گا؟چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ترامیم کے بعد بہت سے زیرِ التواء مقدمات کو واپس کر دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ کیا ان ترامیم میں کوئی ایسی شق ہے جس کے تحت مقدمات دوسرے فورمز کو بھجوائے جائیں؟ ان ترامیم کے بعد نیب کا بہت سا کام ختم ہو گیا۔وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ترامیم کے تحت اگر کیس بنتا ہو تو جائزے کے بعد کیسز دوسرے فورمز کو بھجوائے جائیں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیب کے پاس مقدمات دوسرے فورمز کو بھیجنے کا کوئی قانونی اختیار ہے؟وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ترامیم کے بعد ان مقدمات کو ڈیل کرنے کا اختیار نیب کے پاس نہیں، نیب کے پاس مقدمات دوسرے اداروں کو بھجوانے کا بھی کوئی قانونی اختیار نہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ مقدمات نیب سے ختم ہو کر ملزمان گھر چلے جائیں، نیب کے دفتر میں قتل ہو گا تو کیا معاملہ متعلقہ فورم پر نہیں جائے گا؟ مقدمات دوسرے فورمز کو بھجوانے کے لیے قانون کی ضرورت نہیں، جو مقدمات بن چکے وہ کسی فورم پر تو جائیں گے، دوسرے فورمز کو مقدمات بھجوانے کا اختیار نہیں مل رہا، اس کا نیب سے پوچھیں گے۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ابھی تک نیب کے مقدمات واپس ہونے سے تمام افراد گھر ہی گئے ہیں، یہ بھی کہا گیا کہ نیب ترامیم وہی ہیں جن کی تجویز پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں دی گئی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے آپ کے کنڈکٹ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن بنیادی انسانی حقوق سے ہے۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کہا گیا کہ نیب ترامیم سے میں ذاتی طور پر فائدہ اٹھا چکا ہوں، اگر میں نے نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانا ہوتا تو اسی قانون کے خلاف عدالت نہ آتا، چیئرمین پی ٹی آئی نیب ترامیم سے فائدہ نہیں اٹھا رہے، ترامیم کے تحت دفاع آسان ہے تاہم نیب کو بتا دیا ہے کہ فائدہ نہیں اٹھائیں گے، نیب کو جمع کرایا گیا بیان بھی عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ زیر التواء تحقیقات اور انکوائریاں ترامیم کے بعد سرد خانے کی نذر ہو چکی ہیں، تحقیقات کی منتقلی کا مکینزم بننے تک عوام کے حقوق براہِ راست متاثر ہوں گے۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ منتخب نمائندوں کو بھی 62 ون ایف کے ٹیسٹ سے گزرنا پڑتا ہے، منتخب نمائندے اپنے اختیارات بطور امین استعمال کرتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو نیب قانون میں استثنیٰ نہیں ہے، آرٹیکل 209 کے تحت صرف جج بر طرف ہو سکتا ہے ریکوری ممکن نہیں۔وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جج بر طرف ہو جائے تو نیب کو کارروائی کرنی چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ریاستی اثاثے کرپشن کی نذر ہوں، اسمگلنگ یا سرمائے کی غیر قانونی منتقلی ہو، ان سب پر کارروائی ہونی چاہیے، قانون میں ان جرائم کی ٹھوس وضاحت نہ ہونا مایوس کن ہے، عوام کو خوش حال اور محفوظ بنانا ریاست کی ذمے داری ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ فوجی افسران کو نیب قانون سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ فوجی افسران کے حوالے سے ترمیم چیلنج نہیں کی، فوجی افسران کے خلاف آرمی ایکٹ میں کرپشن پر سزائیں موجود ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سزائیں تو سول افسران اور عوامی عہدے داروں کے خلاف بھی موجود ہیں۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سول سروس قانون میں صرف محکمانہ کارروائی ہے، کرپشن پر فوجداری سزا نہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا کرپٹ آرمی افسر کا عوام سے براہِ راست تعلق نہیں ہوتا؟ آرمی افسر فوج کے علاوہ کسی ادارے کا سربراہ ہو تو نیب قانون کی زد میں آتا ہے، کیا عجیب بات نہیں ہو گی کہ پارلیمنٹ کی ترامیم پر ریاست کہے کہ سزا کیوں کم کر دی؟چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار کا کیس ہے کہ جرم کے اجزاء کو بدل دیا گیا ہے، کیا نیب ترامیم کے ماضی سے اطلاق سے جرائم کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ آخر قانون کے ماضی سے اطلاق کا مقصد کیا ہے؟ اس کا مقصد تو یہ ہوا کہ سزا یافتہ مجرم کہے گا کہ میری سزا ختم اور پیسے واپس کرو۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹ کے پاس ماضی سے اطلاق کی قانون سازی کا اختیار نہیں ہے؟ کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو کہہ سکتی ہے کہ آپ نے چالاکی اور بد نیتی پر مبنی قانون بنایا؟ سپریم کورٹ کے پاس اگر پارلیمنٹ کی قانون سازی چھیڑنے کا اختیار نہیں تو اس کے ساتھ چلنا ہو گا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پارلیمنٹ کو سب کچھ کرنے کی اجازت نہیں ہے، پارلیمنٹ ماضی سے اطلاق کا قانون بنا کر جرم ختم نہیں کر سکتی، ایسے تو 1985ء میں سزا پانے والا مجرم آ کر کہے گا کہ میری سزا نہیں رہی اور دوبارہ ٹرائل کرو۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آئین کی وہ کون سے شق ہے جو ماضی سے اطلاق کی قانون سازی سے پارلیمنٹ کو روکتی ہے؟چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ قانون کا ماضی سے اطلاق ہو گا تاہم جو کیسز نمٹ گئے وہ نہیں کھلیں گے، نیب کے قانون کو واضح ہونا چاہیے تھا، جب قانون واضح نہ ہو تو اس کا حل کیا ہوتا ہے؟ کیا مبہم قانون قائم رہ سکتا ہے؟جسٹس منصور علی شاہ نے پھر سوال اٹھایا کہ چیف جسٹس کے سوال کو آگے بڑھائوں تو کیا سپریم کورٹ قوانین واپس پارلیمنٹ کو بھیج سکتی ہے؟چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ پارلیمنٹ تو بہت سپریم ہے، اگر پارلیمنٹ کو قوانین پر دوبارہ غور کی درخواست کریں تو بیچ کے وقت میں کیا ہو گا؟ اگر عدالت کو قانون میں سقم مل جائے تو کیا پارلیمنٹ کو واپس بھیجیں؟جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ سقم شدہ قانون کو دوبارہ غور کے لیے پارلیمنٹ کو کیسے بھیج سکتے ہیں؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت خود بھی قانون کو دیکھ سکتی ہے اگر بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہوں، یہ بتا دیں کہ نیب ترامیم سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پبلک پراپرٹی میں کرپشن سے ملک کے ہر شہری کا بنیادی حق متاثر ہوتا ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حارث کرپشن کیس کو اپنے اصل دائرہ اختیار کے تحت سنا تھا، حارث کیس کرپشن کا کیس تھا اور اس کو بنیادی حقوق کے زمرے میں سنا گیا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں نے ججز اور بیوروکریٹس کے احتساب سے متعلق پوچھا تھا۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے اب سوموٹو نہیں لیتے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ فوجی افسران سے متعلق نیب کے قانون کی توثیق سپریم کورٹ ماضی میں کر چکی ہے، ججز کے حوالے سے نیب کا قانون مکمل خاموش ہے، ریٹائرڈ ججز کے خلاف شکایات کے ازالے کیلئے کوئی فورم موجود نہیں، ججز ریٹائرمنٹ کے بعد 6 ماہ تک فیصلے تحریر کرتے رہتے ہیں، قانون سازوں نے جن اقدامات کو جرم قرار دیا تھا انہیں اب جرم قرار دینا ختم کر دیا تو کیا ہوا؟ قانون سازوں کو عوام کے سامنے جوابدہ ہونے دیں۔
اس کے ساتھ ہی درخواست گزار چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث اور وفاق کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہو گئے۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ نیب ترامیم کیس کا فیصلہ جلد سنائیں گے، فیصلہ سنانے کی تاریخ کا اعلان بعد میں کریں گے، تمام فریقین کا شکریہ کہ انہوں نے معاونت کی، وقت زیادہ نہیں ہے تو شارٹ اور سویٹ فیصلہ دے دیں گے، میری ریٹائرمنٹ قریب ہے، ریٹائرمنٹ سے قبل فیصلہ سنائیں گے۔اٹارنی جنرل نے پیش نہ ہونے پر عدالت سے معذرت کر لی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل کو بغیر بتائے جلدی میں ملک سے باہر جانا پڑا جس کی انہوں نے معذرت کی ہے۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطائ بندیال نے کہا کہ کوئی بات نہیں، آپ تحریری معروضات جمع کرا دیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل اٹارنی کو ہدایت کی کہ ججز اور آرمی کے احتساب سے متعلق سوالات بھی اپنے جواب میں شامل کر لیں۔نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ رواں سال کراچی میں 36، لاہور میں 21 ریفرنس واپس ہوئے، رواں سال 52 مقدمات بینکنگ اور کسٹم عدالتوں کو منتقل ہوئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ غیر قانونی بھرتیوں کے کیس میں مالی نقصان کا تعین کیسے ہوتا ہے؟نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ بھرتی ہونے والے کی مراعات اور اقدامات سے تعین کیا جاتا ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے پھر استفسار کیا کہ بھرتی ہونے والے کے اقدامات بھرتی کرنے والے کے کھاتے میں کیسے ڈال سکتے ہیں؟ اختیارات کے غلط استعمال میں پیسہ شامل ہونا نیب کا مفروضہ ہوتا ہے، کیا نیب میں مقدمات بنانے کا کوئی طریقہ کار بھی تھا؟ کچھ مقدمات تو نیب نے 10 لاکھ والے بھی بنا دیے تھے۔نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ قانون میں کم سے کم معیار مقرر نہیں کیا گیا تھا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پشاور میں تو لگتا ہے کہ 50 کروڑ کی حد لگانے کے بعد کوئی مقدمہ بچا ہی نہیں۔نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ 2022ء میں 212، رواں سال 336 ریفرنس واپس ہوئے، 2022ء میں 30، رواں سال 24 ریفرنس دوسری عدالتوں کو منتقل ہوئے۔جسٹس اعجازالاحسن نے سوال اٹھایا کہ 2022ء میں تو عدالتوں کو مقدمات کی منتقلی کا اختیار ہی نہیں تھا، اختیارات کے بغیر مقدمات کیسے منتقل ہو گئے؟چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ منتقل ہونے والے ریفرنس کہاں ہیں اور انہیں کون پراسیکیوٹ کرے گا؟نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ منتقل اور واپس ہونے والے مقدمات نیب کی اسٹوریج میں ہیں، پراسیکیوشن کے حوالے سے ابھی تک فیصلہ نہیں ہوا، مئی کی ترمیم کے بعد چیئرمین کو اختیار ہے کہ کیس بنتا ہو تو وہ منتقل کریں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ پرویز اشرف کے علاوہ کسی 62 ون ایف والے کا نام فہرست میں نظر نہیں آ رہا، کیا نیب کو لگتا ہے کہ ترامیم اپنے فائدے کے لیے کی گئی ہیں؟نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ارکانِ اسمبلی کی الگ سے تفصیلات جمع کرائی ہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا بیان جمع کرا دیا جائے گا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ججز اور فوجی افسران کو نیب کے قانون سے استثنیٰ پر بھی رائے دیں۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔