اسلام آباد(این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد 9رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا اور چیف جسٹس نے 7رکنی نیا بینچ بھی تشکیل دیدیا جبکہ نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ میں اس بینچ کو ’’بینچ‘‘تصور نہیں کرتا،جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجربل کو ٹھکانے نہ لگایا جائے تب تک میں کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا،
پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ کیا جائے، بینچ سے اٹھ رہا ہوں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا،یہ عدالت ہی نہیں، جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہر بینچ غیرقانونی ہے، آئین اور قانون کے تحت فیصلے کرنیکا حلف اٹھایا ہے جبکہ سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے ملٹری کورٹس میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد کرتے ہوئے 9 مئی کے واقعات کے بعد گرفتار ہونے والے تمام افراد کا ڈیٹا طلب کرلیا۔
جمعرات کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کا آغاز کیابینچ میں نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھی بینچ کا حصہ بنایا گیاجبکہ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بھی بینچ کا حصہ تھے۔سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ اٹارنی جنرل روسٹرم پر آئیں میں نے کچھ کہنا ہے، عدالت کو اختیار سماعت آئین کا آرٹیکل 175/2 دیتا ہے، میں اپنی قومی زبان اردو میں بات کروں گا۔
انہوںنے کہاکہ تعجب ہوا کہ گزشتہ رات8 بجے کازلسٹ میں میرا نام آیا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر کوئی بات نہیں کروں گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے۔ کہاکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل ابھی بنا نہیں تھا کہ 13اپریل کو سپریم کورٹ کے9رکنی بینچ نے حکم امتناع دیا، سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کی سماعت جولائی تک ملتوی کی۔ سپریم کورٹ رولز پڑھیں کیا کہتے ہیں، آئین سپریم کورٹ کو سماعت کا اختیار دیتا ہے، جج کا حلف کہتا ہے کہ آئین وقانون کے مطابق فیصلہ کروں گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایک قانون ہے، میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل میں بینچ کا حصہ نہیں، کچھ نہیں کہوں گا۔
انہوں نے کہاکہ اس سے پہلے ایک ازخود نوٹس میرے بینچ میں سماعت کیلئے مقرر ہوا، میں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل184/3 میں رولزبنائے جائیں، اس کے بعد تعجب دکھ اور صدمہ ہوا کہ 31مارچ کو عشرت علی صاحب نے سرکلر جاری کیا، عشرت علی صاحب نے 31مارچ کے سرکلرمیں کہا کہ سپریم کورٹ کے 15 مارچ کے حکم کو نظر انداز کریں، یہ وقعت تھی سپریم کورٹ کے فیصلے کی؟ پھرسپریم کورٹ نے6 ممبر بینچ بنا کر سرکلر کی توثیق کی اور میرا فیصلہ واپس لیا، میرے دوست یقینا مجھ سے قابل ہیں تاہم میں اپنے ایمان پر فیصلہ کروں گا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ اس 6 ممبر بینچ میں اگر نظرثانی تھی تو مرکزی کیس کا کوئی جج شامل کیوں نہیں تھا؟
میں نے 6 ممبر بینچ پر نوٹ تحریرکیا جسے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنے کے بعد ہٹادیا گیا، چیف جسٹس نے 16 مئی کو پوچھا کہ کیا میں چیمبر ورک کرنا چاہتا ہوں یا نہیں؟ بتاتا ہوں کہ میں نے چیمبر ورک کو ترجیح کیوں دی، ایک قانون بنادیا گیا بینچز کی تشکیل سے متعلق، کسی پر انگلی نہیں اٹھا رہا لیکن میرے پاس آپشن تھا کہ حلف کی پاسداری کروں یا عدالتی حکم پربینچ میں بیٹھوں، میری دانست میں قانون کو مسترد کیا جاسکتا ہے معطل نہیں کیا جاسکتا، مجھ سے جب چیمبر ورک کے بارے میں دریافت کیا گیا تو میں نے 5 صفحات پر مشتمل نوٹ لکھا۔نامزد چیف جسٹس نے کہاکہ چہ مگوئیوں سے بچنے کے لیے میں اس بات کا قائل ہوں کہ ساری بات کھلی عدالت میں ہونی چاہیے،
اب تو نوٹ بھی ویب سائٹ سے ہٹائے جاتے ہیں اس لیے اپنا جواب یہیں پڑھ رہا ہوں، میں نے چیف جسٹس کو لکھا کہ نوٹ اپنے تمام کولیگز کو بھی بھیجا، میں نے نوٹ میں کہا کہ میرے ساتھیوں نے قانون معطل کرکے مجھے عجیب کشمکش میں ڈال دیا ہے، وفاقی حکومت نے میری سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن تشکیل دیا، انکوائری کمیشن کو 19 مئی کو 5 رکنی بینچ نے کام کرنے سے روک دیا؟ میں نے انکوائری کمیشن میں نوٹس ہونے پر جواب بھی جمع کرایا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے جو درخواست رات گئے موصول ہوئی اس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی بھی درخواست تھی، آج کازلسٹ میں آخر میں آنے والی درخواست سب سے پہلے مقرر کردی گئی، میں اس بینچ کو ’’بینچ‘‘تصور نہیں کرتا، میں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ کیا جائے،
میرا موقف یہ ہے کہ جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجربل کو ٹھکانے نہ لگایا جائے تب تک میں کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا۔انہوں نے کہاکہ پہلے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ کیا جائے، بینچ سے اٹھ رہا ہوں کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، میں اور جسٹس سردار طارق مسعود اس کشمکش میں تھے کہ کیس سننے سے معذرت کریں یا نہیں، سب سے معذرت چاہتا ہوں، میں بینچ سے اٹھ رہا ہوں،کیس سننے سے معذرت نہیں کر رہا، جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل کا فیصلہ نہ ہو میں اس عدالت کو نہیں مانتا۔
اس موقع پر نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ کے دوسرے سینئر جج جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ میں بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اتفاق کرتا ہوں، اس وقت ہم 9 ججز ہیں اور ہم فیصلہ کردیتے ہیں تو اس کیس میں اپیل پر فیصلہ کون کرے گا؟ جب تک ان قوانین کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہم بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ اگر آپ کیس نہیں سنیں گے تو 25 کروڑ عوام کہاں جائیں گے۔جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ 25 کروڑ عوام کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا؟ جب تک ان قوانین کا فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہم بینچ میں نہیں بیٹھ سکتے۔
درخواست گزار اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ کیس سن لیجیے، میری استدعا ہے قاضی صاحب سے۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں آپ کی بہت قدر کرتا ہوں، یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک بار میں اپنے حلف کی خلاف ورزی کردوں۔اعتزاز احسن نے کہا کہ گھر کے تحفظ کیلئے کیس سن لیجیے، آپ سپریم کورٹ میں مل بیٹھ کر فیصلہ کرنے کے پابند ہیں، آپ میرے چھوٹے بھائی ہیں، اگر میں اتفاق بھی کروں تو کہوں گا آپ بینچ میں بیٹھ جائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ بڑے قانون دان اور سینئر ہیں، آپ کہتے ہیں میں اس بار اپنا حلف توڑدوں؟عتزاز احسن نے کہا کہ آپ کا موقف درست ہے لیکن یہ ایک گھر کی مانند ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اعتزاز صاحب یہ گھر نہیں سپریم کورٹ ہے، میں آئین اور قانون کے سائے میں بیٹھ کر فیصلے کرتا ہوں، میں بینچ سے اٹھ نہیں رہا، یہ عدالت ہی نہیں، جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فیصلہ نہیں ہوتا تب تک ہر بینچ غیرقانونی ہے، آئین اور قانون کے تحت فیصلے کرنیکا حلف اٹھایا ہے۔اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ اعتزاز صاحب ایسا نہ کریں، عدالت کے ڈیکورم کا خیال کریں، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ترامیم کر رہے ہیں، ہمارے لیے تمام فاضل جج صاحبان کی عزت و احترام ہے، ہم نے جو کیا آئین کے مطابق کیا، چاہتے ہیں فیصلے حق اور انصاف کے مطابق ہوں، چاہتے ہیں فیصلے مخلوق خدا کی خاطر ہوں، دو معزز سینئر ججز نے اعتراض کیا ہے، ممکن ہے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناع ختم ہوجائے،
اس عدالت کی روایت کے مطابق 2 سینئر ججز کے اعتراض کے بعد تکرار نہ کریں، آپ کیکیس کا کوئی اور حل کرتے ہیں، ہم نے بھی یہ بینچ آئین کے تحت قسم کے مطابق بنایا ہے، یہاں ہم مخلوق خدا کے حق میں فیصلے کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔چیف جسٹس کے ریمارکس کے بعد بینچ اٹھ کر چلا گیا۔بعد ازاں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس کی سماعت کیلئے7رکنی بینچ تشکیل دیدیا، اعتراض کرنے والے دونوں جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اورجسٹس سردار طارق مسعود بینچ میں شامل نہیں۔وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو بینچ میں شامل جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ میں ایک درخواست گزار جواد ایس خواجہ کا رشتہ دار ہوں،کسی کو میری بینچ میں شمولیت پر اعتراض ہے تو ابھی بتادیں۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ کسی کو آپ کی بینچ میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ آپ کے بینچ کا حصہ ہونے پرکوئی اعتراض نہیں ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ موسم گرماکی تعطیلات چل رہی ہیں اس لیے تمام فریقین دلائل مختصر رکھیں، چھٹیوں میں ہمارے بینچ دیگر رجسٹریز میں ہوتے ہیں۔اعتزاز احسن کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ملک میں آرٹیکل 245 کا نفاذ کیا گیا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں چل رہا ہے؟ اس پر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں شروع ہوچکا ہے، قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا کہ 9 مئی کے واقعات کے ناقابل تردید شواہد ہیں، سویلینز کا ٹرائل یا تو کوئی کرنل کرے گا یا بریگیڈیئر۔
جسٹس منصور کے استفسار پر لطیف کھوسہ نے کہاکہ یہ آئی ایس پی آر کا ہی جاری اعلامیہ ہے،کابینہ نے آئی ایس پی آر کے اعلامیے کی توثیق کی، اس میں انسداد دہشت گردی عدالت سے درخواست کرکے سویلینز کے کیسز فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کا کہا گیا، جس نے بھی تنصیبات پرحملہ کیا ان سے میری کوئی ہمدردی نہیں ہے، جس نے جو جرم کیا ہے اس کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ جو تمام مقدمات بنائے گئے انہیں سننے کا اختیار تو انسداد دہشت گردی عدالت کوپہلے ہی حاصل ہے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارا یہی موقف ہے کہ کیسز انسداد دہشت گردی عدالت میں چلیں فوجی عدالتوں میں نہیں، 9 مئی کے واقعات کی آڑ میں نو دس ہزار افراد کو گرفتارکیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم چاہ رہے ہیں کہ صرف حقائق میں رہیں،جو مقدمات درج ہوئے ان میں متعدد نام ہیں، مقدمات میں کچھ پولیس اہلکاروں کے نام کیوں شامل کیے گئے؟ جسٹس منصور نے پوچھا کہ کتنے لوگوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور کتنے گرفتار ہوئے؟وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ 10 مئی کو پہلے 50 افرادگرفتار کیے گئے، شاہ محمود قریشی، مراد سعید اور فرخ حبیب کے خلاف مقدمات درج ہوئے، پورے ملک سے 10 مئی کو 4 ہزار افراد گرفتار ہوئے، کسی فرد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات درج نہیں۔جسٹس مظاہر علی نقوی نے کہا کہ جو تمام مقدمات بنائے گئے ان کو سننے کا اختیار تو انسداد دہشت گردی عدالت کوپہلے ہی حاصل ہے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارا یہی موقف ہے کہ کیسز انسداد دہشت گردی عدالت میں چلیں فوجی عدالتوں میں نہیں۔
جسٹس منصور نے سوال کیا کہ جو متاثرہ ہیں کیا ان میں سے کسی نے سپریم کورٹ سے براہ راست رجوع کیا؟ اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرے پاس اس قسم کی معلومات نہیں ہیں۔اعتزاز احسن کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں نے درخواست دائر کی مگر فی الحال کسی متاثرہ شخص نے سپریم کورٹ سیرجوع نہیں کیا۔جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ جس قانون کے تحت فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہونا ہے کیا اس قانون کوکسی نے چیلنج کیا؟ جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا فوجی عدالتوں سے متعلق قانون چیلنج ہوسکتا ہے؟وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ اورآفیشل سیکرٹ ایکٹ کے خلاف مقدمہ کون سنے گا؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آپ ہمیں آرمی ایکٹ اور ملٹری کورٹس کے رولز بتائیں ، ہمارے پاس اس سے متعلق کوئی کتاب نہیں۔
جسٹس منصور نے سوال کیا کہ سویلینز کے کیس فوجی عدالتوں میں منتقلی کی دی گئی درخواست دکھادیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ کتنے لوگوں کے نام کورٹ مارشل کے لیے بھیجے گئے ہیں؟کوئی قانون یا ٹھوس بات بتائیں کس بنیاد پرسزائیں ہو رہی ہیں؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مجسٹریٹ یاعدالت کو درخواست دی جاتی ہے کہ ان افراد کو ہم آرمی ایکٹ کے ٹرائل میں لے جانا چاہتے ہیں، عدالت نے کسی بنیاد پر تو مقدمات فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کی اجازت دی ہوگی۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آرمی ایکٹ سویلینز پر قابل عمل نہیں تو اے ٹی سی کے مقدمات فوجی عدالت کیسے منتقل کرنے دئیے؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کس قانون اور بنیاد پر سویلینز کے مقدمات فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کی اجازت دی گئی؟
انسداد دہشت گردی عدالت یہ بھی کہہ سکتی ہے کہ ہم ان افراد کو فوجی عدالتوں کے حوالے نہیں کرسکتے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ انسداد دہشت گردی عدالت میں تو کوئی پیش نہیں ہوا، یہی تو کہہ رہا ہوں، یہی سوال آپ کے سامنے لے کر آئے ہیں کہ کیسے سویلینز کو فوجی عدالتوں میں بھیجا رہا ہے؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا انسداد دہشت گردی عدالت میں بحث ہوئی کہ کیوں فوجی عدالتوں میں مقدمات منتقل کیے جائیں؟ اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ جب فارمیشن کمانڈرز اور کابینہ سے منظوری ہو تو 25 کروڑ عوام کہاں جائیں گے؟جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ کیا حکومت کا پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ اس کو چیلنج نہیں کریگا؟
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یہ دکھادیں آرمی ایکٹ میں کہاں ہے کہ کن حالات میں سویلینز کا ٹرائل ہوسکتا ہے، آرمی ایکٹ میں کہاں لکھا ہے کہ سزا کتنی ہوگی؟وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں کہیں سویلینز کے ٹرائل کا ذکر نہیں۔جسٹس منصور نے کہا کہ میرے خیال میں تو ہمارے سول قانون میں آرمی ایکٹ سے زیادہ سخت سزائیں ہیں، اگرپوچھا جائے کہ فوج سے سزا چاہیے یا سول عدالتوں سے تو لوگوں کا رش لگ جائیگا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم آرمی ایکٹ پر پرانے فیصلوں کو بھی دیکھیں گے۔جسٹس منصور نے سوال کیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کیا کہتا ہے کہ کون سے جرائم پر فوجی ٹرائل ہوگا؟ اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں فوجی تنصیب پر حملے کا ذکر ہے لیکن یہ کورکمانڈر ہاؤس تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا تھا کہ فوجی عدالتوں میں انڈر ٹرائل پربنیادی حقوق کا اطلاق نہیں ہوگا، دیکھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ نے وہ فیصلہ کس بنیاد پر دیا تھا۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس طرح کے ٹرائلز سے عالمی سطح پر بھی ملک کی بدنامی ہوتی ہے، یہاں یہ ہوا جس نے پریس کانفرنس کی اس کو چھوڑ دیا جس نے نہیں کی اسے پکڑلیا، ہمارے گھروں پر حملے ہو رہے ہیں، میرے گھر پر حملہ ہوا ہے، سویلین کے فوجی ٹرائل پر امتناع دے دیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہر چیز حکم امتناع سے درست نہیں کی جاسکتی، امید ہے ابھی تک ملٹری ٹرائل شروع نہیں ہوا ہوگا۔جسٹس منیب اخترنے کہاکہ ملزمان کی حوالگی سے پہلے متعلقہ عدالت کو دائرہ اختیار دیکھنا چاہیے تھا، دائرہ سماعت نہ ہو تو عدالت ملزمان کی حوالگی سے انکار کرسکتی ہے، عدالت کہہ سکتی ہے یہ جرم فوجی عدالت کے زمرے میں نہیں آتا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہاکہ سیکشن 549 میں تو ہے کہ متعلقہ افراد کو ان کے ڈیپارٹمنٹ کے حوالیکیا جائے، صرف فوجی افسران کی حوالگی ضابطہ فوجداری کے تحت ہوسکتی ہے۔چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلالیا، چیف جسٹس نے کہاکہ چاہے سول کورٹ ہویا فوجی عدالت، ملزم کو وکیل کے ذریعے دفاع کا موقع ملنا چاہیے، یہاں وکیلوں کو ہی اٹھایا جا رہا ہے، وکلا کو ہراساں کیا جانا کسی صورت قابل قبول نہیں ہے، لطیف کھوسہ کے گھرپرحملہ ہوا، عزیربھنڈاری کو چند گھنٹے کیلئے غائب کیا گیا۔اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان نے کہا کہ کسی بھی وکیل کو ہراساں کرنا غلط ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرا طبقہ صحافی ہیں، صحافی آزاد نہیں ہیں اور یہ ٹھیک نہیں ہے،کیس کو جلد نمٹانا چاہتے ہیں،کوئی حکم امتناع جاری نہیں کر رہے، اس کیس کو سننے والا بینچ اب یہی رہیگا، اگربینچ کا ایک بھی ممبر نہ ہو تو سماعت نہیں ہوسکے گی، تمام فریقین اپنے دلائل تحریری طورپرجمع کرادیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ بتائیں کہ کتنے افراد کو اب تک گرفتارکیا گیا اور انہیں کہاں رکھا گیا؟ خواتین کو کہاں رکھا جا رہا ہے؟ بچوں کو بھی گرفتارکیا گیا ہے؟ پورا معاشرہ ٹراما کا شکار ہے، لوگوں کی گفتگو ریکارڈ کی گئی،ان کی ذاتیات میں مداخلت کی گئی، یہ عوام کی آزادی کا معاملہ ہے، ان سے پوچھیں کہ کتنے افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، تمام گرفتار افرادکے درست اعدادوشمار پیش کیے جائیں۔بعد ازاں فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت نے ملٹری کورٹس میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف فوری حکم امتناع کی درخواست مسترد کرتے ہوئے 9 مئی کے واقعات کے بعد گرفتار ہونے والے تمام افراد کا ڈیٹا طلب کرلیا۔کیس کی سماعت صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی گئی۔
یاد رہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرائے جانے کے بعد دستخط کے لیے صدر کو بھیجا گیا تھا۔سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت سو موٹو نوٹس لینے کا اختیار اب اعلی عدلیہ کے 3سینئر ترین ججز کے پاس ہوگا۔بل کے تحت سپریم کورٹ کے سامنے ہر معاملے اور اپیل کو کمیٹی کا تشکیل کردہ بینچ سنے اور نمٹائیگا جبکہ کمیٹی میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز ہوں گے اور کمیٹی کا فیصلہ اکثریت رائے سے ہو گا۔آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت معاملہ پہلے کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا، بنیادی حقوق سے متعلق عوامی اہمیت کے معاملے پر3 یا اس سے زائد ججزکا بینچ بنایا جائے گا، آئین اور قانون سے متعلق کیسز میں بینچ کم از کم 5 ججز پر مشتمل ہو گا جبکہ بینچ کے فیصلے کے 30 دن کے اندر اپیل دائر کی جاسکے گی، دائر اپیل 14 روز میں سماعت کے لیے مقرر ہوگی، زیر التوا کیسز میں بھی اپیل کا حق ہوگا، فریق اپیل کے لیے اپنی پسند کا وکیل رکھ سکتا ہے۔اس کے علاوہ ہنگامی یا عبوری ریلیف کے لیے درخواست دینے کے 14روزکے اندر کیس سماعت کے لیے مقرر ہوگا۔