اسلام آباد (این این آئی)اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں مسلم لیگ (ن) کے قائد و اشتہاری ملزم نواز شریف کی جائیداد کی نیلامی کا حکم دیدیا۔ جمعہ کو احتساب عدالت کے جج سید اصغر علی نے نواز شریف کی جائیداد نیلامی کی قومی احتساب بیورو (نیب) کی درخواست منظور کرتے ہوئے یہ حکم دیا۔عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ نواز شریف کی جہاں جہاں جائیداد ہے،
متعلقہ صوبائی حکومت اسے نیلام کر سکے گی جبکہ ڈپٹی کمشنر لاہور اور شیخوپورہ 60 دن کے اندر رپورٹ پیش کریں۔عدالت نے کہا کہ جائیدادیں نیلام کر کے رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جائے، نواز شریف کی گاڑیاں بھی پولیس کی مدد سے قبضے میں لے کر 30 دن کے اندر نیلام کی جائیں۔احتساب عدالت نے نواز شریف کے بینک اکاؤنٹس سے رقوم سرکاری خزانے میں منتقل کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ جس جائیداد پر اعتراض نہیں آیا وہ نیلام کی جا سکے گی۔واضح رہے کہ نیب نے چند روز قبل سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ضبط کی گئی جائیداد کی کھلی نیلامی کے لیے احتساب عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔درخواست میں نواز شریف کو توشہ خان ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے اشتہاری قرار دیے جانے کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ 6 ماہ گزر جانے کے باوجود سابق وزیراعظم عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے۔انہوں نے یاد دہانی کراتے ہوئے کہا کہ احتساب عدالت نے نواز شریف کو 17 اگست کو اشتہاری قرار دیا تھا اور یکم اکتوبر کو ان کی جائیداد منسلک کرنے کا حکم دیا تھا۔نیب کی درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم کی جائیدادیں قانون کے مطابق نیلام کرنے کا حکم دے۔عدالت نے نیب کی درخواست پر گزشتہ روز سماعت کا آغاز کیا تھا۔خیال رہے کہ نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف کے چار رجسٹرڈ کمپنیوں میں شیئرز ہیں جو تین غیر ملکی
اکاؤنٹس سمیت آٹھ اکاؤنٹس آپریٹ کرتی ہے، ایک لینڈ کروزر، دو مرسڈیز گاڑیاں اور دو ٹریکٹرز ہیں۔ان کے زیر کفالت کی لاہور، شیخوپورہ، مری اور ایبٹ آباد میں جائیدادیں ہیں۔مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے پہلے ہی توشہ خانہ ریفرنس میں ان کے والد کو اشتہاری قرار دیے جانے کے باعث منجمد کیے گئے اثاثوں کے ہمراہ مری اور چھانگلہ گلی میں شریف خاندان کی جائیدادیں منسلک کرنے کا اقدام چیلنج کر رکھا ہے۔مریم نواز نے توشہ خانہ ریفرنس میں ہال روڈ، مری اور چھانگلہ گلی، ایبٹ آباد کے
گھروں کو منسلک کرنے کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔انہوں نے درخواست میں مؤقف اپنایا ہے کہ دونوں گھر ان کی مرحومہ والدہ کلثوم نواز کے نام پر ہیں، دونوں گھر ریفرنس میں درج عرصے سے بہت پہلے خریدے گئے تھے اور کلثوم نواز کے انتقال کے بعد ان کی ملکیت 14 مئی 2019 کے حکم کے مطابق قانونی ورثا کو منتقل ہوگئی تھی، یہ گھر اب قانونی ورثا کی مشترکہ ملکیت میں غیر منقسم جائیدادیں ہیں۔مریم نواز نے عدالت سے درخواست کی کہ یکم اکتوبر 2020 کے حکم کو
ضابطہ فوجداری کی دفعہ 88 (سکس اے) کے تحت درست کرنے کی ضرورت ہے اور مندرجہ بالا جائیدادوں کو غیر منسلک کیا جائے۔توشہ خانہ ریفرنس کے مطابق نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری نے توشہ خانہ سے صرف 15 فیصد رقم ادا کرکے لگڑری گاڑیاں لی تھیں۔نیب نے الزام لگایا کہ سابق وزیر اعظم یوف رضا گیلانی نے بددیانتی سے اور غیر قانونی طور پر تحفے دینے کے
ضوابط میں نرمی کرکے آصف زرداری اور نواز شریف کو گاڑیوں کی الاٹمنٹ میں سہولت فراہم کی تھی۔اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر تھری نے گزشتہ سال مئی میں ریفرنس میں عدالت کارروائی کا حصہ نہ بننے پر نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے اور انہیں اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کا آغاز کردیا تھا۔