ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

صدارتی ریفرنس نظر ثانی کیس کی سماعت اہلیہ سے سوال پوچھنے پر جسٹس منیب اور جسٹس فائز کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ، جذباتی ہونے پر معذرت کرلی

datetime 19  اپریل‬‮  2021
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(آن لائن) سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے اہلخانہ کی لندن جائیداوں پر ایف بی آر کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے مزید سماعت ایک دن کیلئے ملتوی کر دی ۔پیر کے روز جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں دس رکنی بنچ نے صدارتی ریفرنس نظرثانی کیس کی سماعت کی ۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے بطور درخواست گزار دلائل دیتے ہوئے موقف

اپنایا ہے کہ سپریم جوڈیشنل کونسل نے پیٹھ پیچھے کاروائی کی،جوڈیشنل کونسل کے رویہ کے بعد ریفرنس کو چیلنج کیا،معاملے میں ٹیکس کمشنر نے انکوائری کی جبکہ رپورٹ عدالت نے چیئرمین ایف بی آر سے مانگی تھی،مجھے ایف بی آر رپورٹ کی کاپی بھی فراہم نہیں کی گئی، ایف بی آر رپورٹ کو ریاستی راز بنا کر رکھا گیا ہے،حکومت کہتی ہے بس کسی طرح مجھے برطرف کیا جائے، ایف بی آر کے ایک افسر نے کہا ریٹرن جمع کروایا دوسرے نے کہا نہیں کرایا،2014 میں سرینا عیسی کو ٹیکس ریٹرن جنرل کرانے کی ضرورت نہیں تھی۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے مزید کہا کہ میرے خلاف کیس میں تاخیرکیلئے متعددبارالتواکی استدعاکی گئی، 22 جون 2020 کوفروغ نسیم نے میری اہلیہ سے متعلق ایک بات کہی،فروغ نسیم نے کہا ہندومذہب میں شوہرکے مرجانے پراہلیہ ستی ہوجاتی ہے،فروغ نسیم نے خواتین کی تضحیک کی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ جوالزامات لگارہے ہیں ہمیں ان کودیکھنا ہے۔

جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ الزام نہیں عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے، میری درخواست ہے دلائل مکمل کرنے دیں،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جہاں سے گزشتہ دلائل ختم کیے وہیں سے آغازکریں،جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں اپنے طریقے سے دلائل دوں گا جس پر

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کہ اپنی آوازکونیچارکھیں،یہ عدالت ہے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2 سال سے میری گردن پرتلوارلٹک رہی ہے،جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیئے کہ ججزکے علاوہ کسی نے کوئی بات کہی تووہ غیرمتعلقہ ہے،

اسے چھوڑ دیں،جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ غیرمتعلقہ نہیں بلکہ اس کیس سے جڑی ہوئی ہیں، فروغ نسیم نے عدالت کیسامنے جھوٹ بولے،پہلے میری اہلیہ کی بات سن لیں پھر دلائل مکمل کروں گا ، جذباتی ہونے پر عدالت سے معذر ت خواہ ہوں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سرینا عیسیٰ

کا نام سپریم جوڈیشل کونسل انکوائری میں سامنے آیا ، سرینا عیسیٰ نے عدالت میں کہا کہ سماعتوں کی آڈیو ریکارڈنگ مانگی تھی جو نہیں دی گئی ، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس میں شک نہیں آپ عدالتی فیصلے سے متاثر ہوئی ہیں ،عدالت نے آڈیو ریکارڈنگ فراہم کرنے کا حکم دیا تھا

، مقدمہ غیر قانونیت کا نہیں بلکہ ذرائع آمدن کا ہے۔قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فروغ نسیم عدالت میں جھوٹ بول کر جرم کے مرتکب ہوئے، فروغ نسیم نے طنز کیا کہ کیا سلائی مشین چلا کر اتنے پائونڈ کی پراپرٹی بنائی،میں فروغ نسیم کو تضحیک آمیز دلائل سے روکنے پر

جسٹس قاضی امین کا شکر گزار ہوں۔جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ سرینا عیسیٰ کو ذاتی کام کی بنا پر دلائل کی اجازت دی جائے، جس کے بعد سرینا عیسیٰ روسٹرم پر آگئیں، جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ آپ اپنے دلائل کو جتنا ممکن ہو مختصر رکھیں۔ سرینا عیسیٰ نے دلائل میں کہا کہ مرکزی

کیس فیصلے میں 194 بار میرا اور میرے بچوں کا تذکرہ کیا گیا، ہم تو مرکزی مقدمے میں فریق ہی نہیں تھے، عوامی سطح پر ہمارے اہلخانہ کی تضحیک کی گئی۔جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ مرکزی مقدمے میں آپ کی گفتگو کا ٹرانسکرپٹ موجود ہے، آپ مرکزی کیس کے

ریکارڈ سے دلائل دیں تو سمجھنے میں آسانی ہوگی، آپ اس کیس میں تھرڈ پارٹی ہیں، آپ کو دفاع کا موقع دیا تھا، آپ کابراہ راست اس کیس سے تعلق نہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس فائز عیسیٰ کا نام لیے بغیر ریمارکس میں کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں جج کا کنڈکٹ زیربحث رہا،

درخواست گزار تو سپریم جوڈیشل کونسل جانا ہی نہیں چاہتے،اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی نشست سے اٹھ کر روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ میرے سپریم جوڈیشل کونسل میں نہ جانے سے متعلق بات حقائق کے منافی ہے۔جسٹس فائز عیسیٰ نے بتایا کہ مجھے سپریم جوڈیشل کونسل نے

نوٹس دیا لیکن مکمل دفاع کا حق نہیں دیا گیا، میں نے سپریم جوڈیشل کونسل میں مجموعی طور پر 5 جوابات جمع کرائے، میں نے جوڈیشل کونسل کارروائی ملتوی کرنے کیلئے ایک درخواست بھی نہیں دی۔سرینا عیسیٰ نے بتایا کہ میں نے مرکزی کیس کی ریکارڈنگ اور ٹرانسکرپٹ کیلئے

رجسٹرارسپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے، مجھے رجسٹرارسپریم کورٹ کی طرف سے کیس کا ٹرانسکرپٹ ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ کیس کا ریکارڈ اور ٹرانسکرپٹ فراہم کرنے کا توعدالتی فیصلہ موجود تھا، تسلیم کرتے ہیں آپ عدالتی

کارروائی کے سبب سب سے زیادہ متاثر ہوئیں، یہ کیس غیر قانونیت کا نہیں بلکہ ذریعہ آمدن کا ہے، کیا آپ نے ایف بی آر کی طرف سے عائد کردہ جرمانہ ادا کیا؟سرینا عیسیٰ نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے جرمانہ ادا نہیں کیا، جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے ایف بی آر

کے آرڈر کو چیلنج کیا؟ سرینا عیسیٰ نے بتایا کہ جی ہم نے ایف بی آر آرڈر کو متعلقہ فورم پر چیلنج کر رکھا ہے۔اسرینا عیسیٰ نے کہا کہ جب غیر ملکی جائیدادیں خریدی گئیں اس وقت میرے بچے بالغ تھے۔وزیراعظم عمران خان کیوں اپنی 3 بیویوں اور3 بچوں کے اثاثے ظاہرنہیں

کر رہے؟وزیراعظم عمران خان آرٹیکل 62 پر پورا نہیں اترتے، سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کیس فیصلے میں لکھا انکم ٹیکس شق 116مبہم ہے۔جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ انکم ٹیکس قانون کی شق116 کو مبہم قرار دینا آپ کے حق میں ہے، سرینا عیسیٰ نے بتایا کہ

میں 1982 سے ٹیکس ادا کررہی ہوں، کمرہ عدالت میں موجود ایسے کتنے افراد ہیں جو 1982سے ٹیکس دے رہے ہیں؟جسٹس منیب اختر نے سرینا عیسیٰ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر رپورٹ میں کہا گیا آپ کے بیان میں تضاد ہے، آپ کا موقف ہے کہ ایک بیرون ملک جائیداد

آپ کی ہے، دیگر دو بیرون ملک جائیدادیں بچوں کی ہیں، ایف بی آر کہہ رہا ہے دیگر 2 جائیدادوں میں ا?پ 50 فیصدکی شیئر ہولڈرہیں، اس سوال کا جواب ایف بی آر میں نہیں دیا گیا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایف بی آر کیمطابق آپ نے بچوں کی تعلیم کے لیے پیسہ باہر بھجوایا تھا،

اس موقع پر سوال پوچھنے پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس منیب اختر میں سخت جملوں کا تبادلہ ہوا، فائز عیسیٰ نے کہاکہ ایف بی ا?ر کے پاس اس بات کا کیا ثبوت ہے، میری اہلیہ وکیل نہیں ان سے ایسے سوال نہ پوچھیں۔جسٹس منیب اختر کا جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے مکالمہ

کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی آپ مداخلت نہ کریں، آپ چپ کر کے بیٹھ جائیں، سرینا عیسٰی خود دلائل دے رہی ہیں تو سوال کے جواب بھی دیں گی۔سرینا عیسیٰ نے بتایا کہ بینک عملے نے فارم بھرے تھے میں نے صرف دستخط کیے، ایک بیرون ملک جائیداد میری ہے،

باقی 2 جائیدادوں میں شیئر ہولڈر ہوں، میں 100 فیصد جواب دے چکی ہوں، میرا موقف کبھی نہیں بدلا، یہ بہت پرانا معاملہ ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال سورس آف فنڈز کا ہے، سرینا عیسیٰ نے کہا کہ سابق چیئرمین ایف بی آر جہانزیب خان نے جسٹس فائزعیسیٰ کیخلاف تحقیقات کی

منظوری نہیں دی،جہانزیب خان کو تحقیقات کی منظوری نہ دینے پر عہدے سے ہٹایا گیا، جہانزیب خان نے شہزاد اکبر کی غیرقانونی فرمائش پوری نہیں کی تھی۔سرینا عیسیٰ نے کہا کہ ایف بی آر کمشنر نے قرار دیا میں اثاثے چھپانے کی مرتکب ہوئی ہوں، شہزاد اکبر پی ٹی آئی کے

ممبر اور غیرمنتخب شخص ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پیسہ باہر جانا ثابت ہورہا ہے تو مقصد معنی نہیں رکھتا، جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ پیسہ تعلیم کے لیے بھجوا کر فلیٹ خریدنا غیر قانونی نہیں؟ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ اصل بات یہ ہے پیسہ بینک کے

ذریعے بھیجا گیا ہنڈی کے ذریعے نہیں،سارا پیسہ آپ کا تھا تو بات ختم، بات ختم ہونے کا مطلب ہے یہ نقطہ مکمل ہوگیا کیس ابھی چل رہا ہے۔جسٹس عمر عطابندیال کی بات پر عدالت میں قہقے گونج اٹھے،سرینا عیسیٰ نے کہا کہ عدالت میرے متعلق فیصلے میں لکھی گئی آبزرویشن

حذف کرے، شہزاد اکبر عمران خان کے متوازی حکومت چلا رہے ہیں، میں اور میرے بچے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے زیر کفالت نہیں، عمران خان نے بھی اہلیہ اور بچوں کے اثاثے ظاہر نہیں کیے، عمران خان بطور وزیراعظم عہدے پر کیسے رہ سکتے ہیں؟ عمران خان نے ٹیکس گوشواروں

میں سچ نہیں بولا۔جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آپ کو سمجھنا ہوگا ریفرنس عدالت کالعدم قرار دے چکی ہے، آپ کے تمام دلائل ریفرنس کے خلاف ہیں، آپ کا معاملہ صرف کیس ایف بی آر کو بھجوانے تک ہے۔سرینا عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لندن جائیدادوں کا ریکارڈ بھی

سپریم کورٹ کو فراہم کیا ہے ،ایف بی آر نے حکم نامے میں تنخواہ ، ملنے والے کرایوں کو شامل نہیں کیا ،ایف بی آر نے کراچی کی فروخت اراضی کے پیسے شامل نہیں کیے ، لندن جائیدادوں کے ریکارڈ میں جسٹس فائز کا نام نہیں ہے ، لندن جائیداوں کیلئے فنڈ منتقلی میں بھی میرے شوہر

کا نام نہیں ، کیس میں فریق نہیں تھے بھر بھی خلاف فیصلہ دیا گیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت نے آپ کو سنا تھا ،جسٹس فائزسپریم جوڈیشل کونسل کاسامنانہیں کرنا چاہتے ،جسٹس فائزعیسیٰ نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے پیٹھ پیچھے کاررووائی کی ،جوڈیشل کونسل کے

رویے کے بعد ریفرنس کو چیلنج کیا۔سیکریٹری سپریم جوڈیشل کونسل نے ایف بی آر کی رپورٹ عدالت میں جمع کروادی۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے درخواست کی کاپی ان کو بھی فراہم کی جائے جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ رپورٹ کی کاپی کروا کر آپ کو بھی دیدیںگے۔

جسٹس فائز عیسیٰ سپریم جوڈیشنل کونسل کا سامنا نہیں کرنا چاہتے،سرینا عیسیٰ کا نام سپریم جوڈیشنل کونسل میں جاری انکوائری میں سامنے آیا،اس میں شک نہیں کہ سرینا عیسیٰ عدالتی فیصلے سے متاثر ہوئی ہیں،عدالت نے آڈیو ریکارڈنگ فراہم کرنے کا حکم دیا تھا،مقدمہ غیر

قانونیت کا نہیں بلکہ ذرائع آمدن کا ہے،درخواست گزار کو سمجھنا ہوگا کہ ریفرنس عدالت کالعدم قرار دے چکی،یہاں دئیے جانے والے تمام دلائل ریفرنس کے خلاف ہیں،یہاں معاملہ صرف کیس ایف بی آر کو بھجوانے تک ہے۔بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے معاملے کی سماعت آئندہ کل تک کے لئے ملتوی کر دی ہے۔اس موقع پر عدالت نے جسٹس فائزعیسی نظرثانی درخواستوں کی سماعت کل منگل کی صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی، سرینا عیسیٰ کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گی۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…