اسلام آباد (آن لائن) براڈ شیٹ انکوائری رپورٹ میں ذمہ دار قرار دئیے جانے پر سابق ہائی کمشنرعبدالباسط نے کہا ہے کہ انکوائری کمیشن رپورٹ میں ابہام ہے، ایسا تاثر ملتا ہے جیسے تمام رقم میں نے ادا کی، حالا نکہ براڈ شیٹ کو دیے گئے چیک پر میرے دستخط نہیں، مجھے پیمنٹ ریکارڈ اور ایگریمنٹ کی کاپی واپس پاکستان بھیجنے کا کہا
گیا، میں نے ہدایات کے مطابق تمام اوریجنل ریکارڈ ڈپلومیٹک بیگ کے ذریعے پاکستان بھجوا دیا، میں کوئی لیگل اتھارٹی نہیں ہوں اور نہ ہی سیٹلمنٹ اگریمنٹ میں نے طے کیا، میرا کام دی جانے والی ہدایات کی قانونی جانچ پڑتال نہیں، کیوں کہ ہائی کمیشن تحقیقاتی ادارہ نہیں ہوتا۔پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے راڈ شیٹ انکوائری رپورٹ پر ردعمل سابق سفیر عبدالباسط نے کہا ہے کہ مئی 2008ء میں پاکستانی ہائی کمیشن کو کہا گیا کہ براڈ شیٹ جبرالٹر کے ساتھ سیٹلمنٹ اگریمنٹ فائنل ہوگیا ہے ہمیں کہا گیا جیری جیمز آئیں گے انھیں پیمنٹ کیلیے چیک دے دیا جائے، سفارتخانے کے پاس خطیر رقم نہیں ہوتی، اس لیے اسپیشل ریمی ٹینس کے ذریعے ہائی کمیشن پیسے بھیجے گئے، 19 مئی تک پیسے نہیں آئے تو فیکس کے ذریعے دفترِخارجہ کو مطلع کیا۔انہوں نے بتایا کہ براڈ شیٹ کو 2 اقساط میں رقم کی ادائیگی کی گئی، پہلی قسط میں 6 لاکھ اور چند ہزار ڈالرز ادا کیے گئے اس کے بعد میرا ٹرانسفر ہوگیا، دوسری قسط ستمبر کے مہینے میں ادا کی گئی جب میرا لندن سے تبادلہ ہوچکا تھا، اگر براڈ شیٹ میں کوئی مسئلہ تھا تو دوسری قسط کیوں بھیجی گئی۔ سابق سفارتکار کے مطابق ہائی کمیشن کو ہدایات نیب نے براہِ راست دیں، ہائی کمیشن کو ہدایات اور ان پر عملدرآمد معمول کی کارروائی ہوتی ہے میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو یہ کام اسی طرح ہوتا۔