اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئرصحافی اور برطانیہ میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن نے اپنی تازہ ترین یادداشتوں میں انکشاف کیا ہے کہ برطانیہ 2006 میں سمجھتا تھا کہ پرویزمشرف کی زندگی شدید خطرات کا شکار ہے اور کسی بھی وقت کوئی حادثہ رونما ہوسکتا ہے اس لیے کسی حادثے کا شکار ہونے سے پہلے برطانیہ فوجی ڈکٹیٹر
مشرف کی نگرانی میں انتخابات کروانے کا خواہشمند تھا، یہ برطانیہ ہی تھا جس نے بے نظیربھٹو امریکہ اور مشرف کے درمیان مذاکرات شرو ع کروانے میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ امریکی پاکستانیوں کے حوالے سے برطانوی رائے کو اہم جانتے ہیں کیونکہ برطانیہ نے اس خطے پر حکمرانی کی ہے ، روزنامہ جنگ میں اعزاز سید لکھتے ہیں کہ واجد شمس الحسن کی” بھٹوخاندان میری یادوں میں” کے عنوان سے لکھی گئی خودنوشت میں پیپلز پارٹی کی سابق سربراہ بے نظیر بھٹو کے امریکہ کے ذریعے پرویزمشرف سے مذاکرات کا پس منظر بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ کتاب میں بلاول بھٹو زرداری کا تبصرہ بھی شائع کیا گیا ہے جس میں انہوں نے واجد شمس الحسن کیلئے تعریفی کلمات لکھے ہیں۔ کتاب کا سرورق ممتاز صحافی مجاہد بریلوی کی طرف سے لکھا گیا ہے۔بریلوی نے ہی واجد شمس الحسن کو اپنی یادداشتیں قلمبندکرنے پر آمادہ کیا اور اس کتاب کے لیے انتظامات کیے۔واجد شمس الحسن کی طرف سے لکھی گئی اس کتاب میں کچھ
تاریخی واقعات درج ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس حوالے سے انہوں نے تاریخ کا ذکر کیے بغیر برطانیہ کے سابق سیکرٹری خارجہ جیک اسٹرا سے پاکستان میں بحالی جمہوریت کیلئے بے نظیر بھٹو کی ایک ملاقات کا تذکرہ کیا ہے جو بے نظیر بھٹو کے ایک معتمد
رحمان چشتی اور واجد شمس الحسن کی کوششوں سے لندن میں ہوئی۔واجد شمس الحسن نے اپنی موجودگی میں بے نظیر بھٹو اور برطانوی سیکرٹری خارجہ جیک اسٹرا سے ملاقات کے حوالے سے لکھا ہے کہ برطانوی سیکرٹری خارجہ جیک اسٹرا نے لندن میں بے نظیر بھٹو کو بتایا تھا کہ
پرویز مشرف پاکستان میں اس شرط پر عام انتخابات کرانے کیلئے تیار ہے کہ بے نظیر بھٹو پاکستان وآپس لوٹیں نہ عام انتخابات میں حصہ لیں اس پر بے نظیر بھٹو نے برطانوی سیکرٹری خارجہ کو بتادیا کہ وہ پاکستان کی مقبول لیڈر ہیں ان کے بغیر انتخابات کیسے ہونگے ؟نائن الیون سے
پہلے آپ مشرف سے ہاتھ ملانے کیلئے تیار نہیں تھے آپ نائن الیون کے بعد اسکی حمایت کرنے لگے ہیں۔ مشرف نہیں چاہے گا کہ میں پاکستان جائوں اور فائدہ حاصل کروں۔ برطانوی سیکرٹری خارجہ نے بے نظیر سے سوال کیا کہ آپ کی کیا شرائط ہیں ؟ بے نظیر نے کہا کہ واجد صاحب
نے آپ کو ہرچیز لکھ کردیدی تھی۔جیک اسٹرا نے کہا کہ وہ ٹھیک ہے لیکن ہم آپ سے سننا چاہتے ہیں کہ آپ کیا چاہتی ہیں۔بے نظیر بھٹو نے کہا کہ جہاں تک میرے وزیراعظم ہونے یا نہ ہونے کی بات ہے اس پر میں پرویزمشرف سے ون ٹو ون بات کروں گی۔ جیک اسٹرا نے کہا کہ
مشرف اس شرط پر الیکشن کرانے کیلئے تیار ہوا ہے کہ آپ اس میں حصہ نہ لیں اور پاکستان واپس نہ جائیں۔ بے نظیر نے کہا کہ یہ تو بڑا مشکل ہے کہ میں الیکشن میں حصہ نہ لوں اورپاکستان وآپس نہ جائوں۔میری پارٹی تو اس وقت تک الیکشن میں حصہ نہیں لے گی جب تک میں الیکشن
مہم نہ چلائوں۔ اس پر جیک اسٹرا نے کہا کہ آپکے امریکا سے کیسے تعلقات ہیں ؟ بے نظیر نے کہا کہ جیسے آپ کے ساتھ ہیں ویسے ہی امریکا کے ساتھ تعلقات ہیں، جیسے آپ نے نو لفٹ کی ہوئی ہے ویسے ہی امریکا نے نو لفٹ کی ہوئی تھی، امریکا میں بھی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں
سے ملاقات رہتی ہے مگر سینیٹر یا سیکرٹری کی سطح پر لوگوں سے ملاقات نہیں ہوتی جیک اسٹرا نے کہا اچھا میں دیکھتا ہوں میں آپ کیلئے کیا کرسکتا ہوں،اس نے کہا کہ میں امریکا سے بات کرتا ہوں، واجد شمس الحسن نے کتاب میں لکھا ہے کہ جیک اسٹرا کی اس ملاقات کے بعد
پہلی بار امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ نے لندن میں بے نظیر بھٹو سے ملاقات کی یوں امریکا اور پرویز مشرف کے ساتھ پیپلزپارٹی کے مذاکرات کا آغاز ہوا۔کتاب میں واجد شمس الحسن نے تفصیل سے بے نظیر بھٹو کے ساتھ گزرے دنوں کا تذکرہ کیا اور بتایا کہ پرویزمشرف اور بے نظیر
کے درمیان پہلی ملاقات 24 جنوری (کتاب میں سال کا ذکر موجود نہیں غالباً 2007 )کو دبئی میں ہوئی جو ساڑھے چار گھنٹے تک جاری رہی، اس ملاقات میں پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو جنرل کیانی اور رحمان ملک کے ساتھ ابوظہبی کے شاہی محل میں ملے تھے،ملاقات دونوں رہنمائوں کے درمیان براہ راست ہوئی ،کیانی اور رحمان ملک کمرے کے
باہربیٹھے رہے، واجد شمس الحسن لکھتے ہیں ملاقات کے بعد بے نظیر نے اسی رات بتایا کہ مشرف بہت گہرا آدمی ہے وہ مجھے کسی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں، بے نظیر نے بتایا کہ مشرف نے ملاقات میں کہا کہ میں ایک بات آپ کو صاف صاف بتا دوں کہ میں آپ کو پاکستان نہیں آنے دوں گا۔