اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ میں نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ دو سال سے میرے خلاف حکومتی پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، لگتا ہے آج ہم پاکستان میں نہیں گٹر میں رہ رہے ہیں۔سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
صدارتی ریفرنس نظرثانی کیس کیسماعت کی۔جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت کے آغاز پر کہا کہ ایڈووکیٹ منیر اے ملک کی طرف سے درخواست دائر کی گئی ہے کہ ان کی طبیعت ناساز ہے اور دل کی تکلیف ہے، انہوں نے پیش ہو کر دلائل دینے سے معذرت کر لی ہے، ان حالات میں ہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دلائل دینے کی اجازت دیتے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میری اور میرے اہل خانہ کی پہلے ہی تضحیک ہو چکی ہے، پوری دنیا کے سامنے ہمارے خلاف منظم تضحیکی مہم چلائی گئی۔مستقبل کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نہ صرف انصاف ہونا چاہیے بلکہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے، مجھ پر جو داغ لگایا گیا وہ قبر تک میرے ساتھ جائے گا، مجھ پر لگائے گئے داغ کا اثر میرے بچوں اور ان کے بچوں پر بھی پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ بیرون ملک جائیدادیں میری اہلیہ کی ہیں، ہم پر منی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا، جب جائیدادیں خریدی گئیں اس وقت منی لانڈرنگ کا قانون وجود ہی نہیں
رکھتا تھا، قانون کا اطلاق ماضی کے اقدام پر نہیں ہو سکتا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا میں عام شہری کی طرح نہ پریس کانفرنس کر سکتا ہوں نہ ہی بیان جاری کر سکتا ہوں، عمران خان، عارف علوی اور وزرا ذاتی حیثیت میں گفتگو کر سکتے ہیں لیکن میں بطور جج ذاتی حیثیت
میں بھی گفتگو نہیں کر سکتا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جن فیصلوں کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ کھلی عدالت میں سماعت کے ہیں، آپ کے مقدمے کی سماعت پہلے ہی کھلی عدالت میں ہو رہی ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دلائل دیتے ہوئے جذباتی ہوگئے اور ان کی آواز بھر آئی،
انہوں نے کہا کہ دو سال سے میرے خلاف حکومتی پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، سپریم کورٹ کے جج اور اس کے اہل خانہ کے خلاف سرکاری چینل کے ذریعے پروپیگنڈا کیا گیا، مقدمہ میری 10 لاکھ تنخواہ کا نہیں ملک کے مستقبل کا ہے، میں یہ جنگ اپنے ادارے کے لیے لڑ رہا ہوں،
اگر میری جگہ اپ کے اہلیہ اور بچے ہوتے تو آپ لوگ کیا کرتے؟انہوں نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کل کو کسی بھی جج کو پروپیگنڈا میں گھسیٹا جا سکتا ہے، اگر فاضل ججز کو کوئی بات گراں گزری ہو تو معذرت چاہتا ہوں۔جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہ ہم آپ کو سننے
بیٹھے ہیں آپ دلائل جاری رکھیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آزادی صحافت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آج ملک میں میڈیا کیحالت دیکھ لیں، صحافیوں کو اسلام آباد سے اغوا کرلیا جاتا ہے، صحافیوں کے اغوا پر وزیر اعظم کہتے ہیں کہ مجھے کیا معلوم کیا ہوا، صحافیوں پر تشدد ہوا
کسی نے انکوائری تک نہیں کی، لگتا ہے آج ہم پاکستان میں نہیں گٹر میں رہ رہے ہیں، اگر ذمہ داران کے نام کھلی عدالت میں بتائے تو میرے خلاف ریفرنس آجائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ سانحہ مشرقی پاکستان پر بات کی جائے تو خاموش کرا دیا جاتا ہے، قائد اعظماور میرے والد کی روح قبر میں تڑپ
رہی ہوگی، ایک فوجی ڈکٹیٹر کی اقتدار کی حوس نے ملک تباہ کردیا۔اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے جج صاحب، یہ قانون کی عدالت ہے ہم نے مقدمات کے فیصلے کرنے ہیں، آپ کو کسی سے مسئلہ ہے تو اسے عدالت سے باہر رکھیں، بہتر ہوگا کہ ہم اپنی حدود سے باہر
نہ نکلیں، کوئی صحافی اغوا ہوا ہے تو اس کی الگ پٹیشن دائر کریں۔جسٹس منظور احمد ملک نے کہا کہ قاضی صاحب، جذباتی نہ ہوں کیس پر فوکس کریں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میریذات کو بھول جائیں، میں ملک کے لیے جذباتی ہو رہا ہوں۔جسٹس منظور ملک نے کہا کہ
ہر بات ہر جگہ کرنا مناسب نہیں ہوتا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مختلف ممالک میں عدالتی کارروائی کی براہ راست کوریج کی مثالیں موجود ہیں، پارلیمنٹ کی کارروائی براہ راست نشر ہوتی ہے حالانکہ آئین میں اس کی اجازت نہیں، براہ راست عدالتی کارروائی نشر ہونے
سے نوجوان وکلا کو سیکھنے کا موقع ملے گالیکن یہاں میڈیا کنٹرولڈ ہے، میڈیا میں دونوں فریقین کی لڑائی دکھا کر ریٹنگ حاصل کی جاتی ہے، ہر فریق میڈیا میں آکر کہتا ہے کہ ہمارے حق میں فیصلہ دیا گیا، سچ عوام تک نہیں پہنچایا جاتا۔انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ براہ راست
عدالتی کارروائی نشر کرنے سے کسی کو اعلیٰ عدلیہ پر انگلی اٹھانے کا موقع نہیں ملے گا، مجھے اپنی صفائی کے لیے ایک موقع ملنا چاہیے، لاؤڈ اسپیکر کی ٹیکنالوجی کواذان کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جب ایک ٹیکنالوجی موجود ہے تو اس کا استعمال کیوں نہیں کیا جا رہا، قرآن
کی پہلی آیت میں اقرا کہا گیا ہے، ایک اخبار نے خبر دی سپریم کورٹ نے براہ راست نشریات سے متعلق میری درخواست رد کردی ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے آپ کی یہ دلیل بہت اہم ہے کہ شفافیت ہونی چاہیے اور ہمارے فیصلوں میں شفافیت کی عکاسی ہونی چاہیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا میں اہم نہیں ہوں بلکہ ادارہ اہم ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اگر ہم نے آپ کو براہ راست نشریات کی اجازت دی تو پھر کل سب کو اجازت دینی پڑے گی، یہ معاملہ جوڈیشل نہیں انتظامی اور پالیسی معاملہ ہے۔کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
نے ایک گانے کا حوالہ بھی دیا۔انہوں نے کہا کہ مجھے تحمل سے سننے کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اگر میں دلائل سے تجاوز کروں تو مجھے ڈانٹ دیجیے گا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم آپ کو ڈانٹیں گے نہیں بلکہ مطلع کر دیں گے،ہمیں آپ کا احترام ہے۔انہوں نے
ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ کیا آپ دلائل دیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا میں ابھی صرف نوٹنگ لے رہا ہوں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آپ کو کتنا وقت چاہیے، کون حکومت کی طرف سے دلائل دے گا، کہیں ایسا نہ ہو وزیر قانون خود آکر دلائل دیں،
نظرثانی کا مقدمہ اتنا طویل نہیں چلتا، ہمیں کل تک بتائیں کس کو وکیل کرنا ہے اور کتنا وقت چاہیے۔جسٹس منصور علی شاہ نے وفاقی حکومت کے وکیل سے مکالمے میں کہا دس رکنی بینچ یہ کیس سننے کے لیے بیٹھا ہوا ہے،آپ کا یہ کہنا کہ ابھی طے نہیں ہوا کون وفاق کی نمائندگی کرے گا،
بڑی عجیب بات ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے اختتام پر کہا کہ میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں، کمرہ عدالت میں موجود کچھ صحافیوں نے مجھے پیشکش کی ہے کہ وہ براہ راست نشریات کے لیے تکنیکی سہولت فراہم کرنے کو تیار ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پیشکش اچھی
ہے، اگر ہم نے فیصلہ کر لیا تو ریاست کے پاس وسائل موجود ہیں، ہم نجی کیمروں کو اجازت نہیں دیں گے، ہمیں کمرہ عدالت میں صحافی قابل قبول ہیں لیکن سرمایہ دارانہ مفاد قابل قبول نہیں ہے۔عدالت نے کیس کی سماعت کل دن ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی۔