راولپنڈی (آن لائن) پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے تصدیق کی ہے کہ احسان اللہ احسان کے فرار میں ایک سے زائد فوجی ملوث ہیں،کارروائی شروع کر دی ہے،کارروائی سے متعلق پیش رفت جلد میڈیا کے ساتھ شیئر کی جائے گی،بھارت کی تمام فوجی نقل و حرکت پر ہماری نظر ہے اور پاکستان ان خطرات سے نمٹنے
کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے،سعودی عرب سے فوجی سطح پر اچھے تعلقات ہیں اور پاکستان کے ٹریننگ سینٹر سعودی عرب میں موجود ہیں،ان کا یمن تنازعے سے کوئی تعلق نہیں،پاکستان میں اب دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے نہیں، نئی امریکی انتظامیہ افغان طالبان مذاکرات کے معاملے پر غور کر رہی ہے،امن کے قیام کے لیے مذاکرات جاری رہنے چاہئیں۔بدھ کو راولپنڈی میں غیر ملکی میڈیا نمائندگان سے ملاقات میں پاکستانی فوج کے ترجمان نے اہم امور پر بات چیت کی۔پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے صحافیوں سے گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان فوجی تحویل سے فرار ہوئے تھے اور ان کے فرار میں چند فوجی اہلکار ملوث تھے جن کے خلاف کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔انہوں نے کہاکہ کارروائی سے متعلق پیش رفت جلد میڈیا کے ساتھ شیئر کی جائے گی۔تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے گذشتہ برس فروری میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ پاکستان فوجی تحویل سے فرار ہو کر بیرون ملک جانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔گذشتہ برس اگست میں جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ احسان اللہ احسان کو ایک آپریشن میں استعمال کیا جا رہا تھا کہ اس دوران وہ فرار ہو گئے تھے۔انہوں نے
احسان اللہ احسان کی جانب سے جاری کردہ آڈیو ٹیپ کو بھی جھوٹا قرار دیا تھا۔گذشتہ دنوں احسان اللہ احسان کے نام سے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ملالہ یوسف زئی کے خلاف دھمکی آمیز ٹویٹ کے بارے میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ وہ اکاؤنٹ احسان اللہ احسان کا اصلی اکاؤنٹ ہے اور اس باے میں ان کے پاس مزید
کوئی معلومات نہیں ہیں۔انہوں نے کہاا حسان اللہ احسان کی دوبارہ گرفتاری کی کوششیں بھی جاری ہیں لیکن فی الوقت انھیں علم نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں۔خطے کی صورت حال اور پاکستان کی پالیسی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت کی پالیسی ہمسایوں کی جانب امن کا ہاتھ بڑھانا ہے۔انہوں نے کہاکہ آرمی چیف نے بھی
حالیہ بیان میں ہمسایہ ممالک کی جانب امن کا ہاتھ بڑھانے کی بات کی تھی لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ پاکستان مشرقی سرحد پر درپیش خطرات سے آگاہ نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی تمام فوجی نقل و حرکت پر ہماری نظر ہے اور پاکستان ان خطرات سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں
نے کہا کہ سعودی عرب سے فوجی سطح پر اچھے تعلقات ہیں اور پاکستان کے ٹریننگ سینٹر سعودی عرب میں موجود ہیں لیکن ان کا یمن تنازعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔سابق آرمی چیف راحیل شریف کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ وہ ابھی سعودی عرب میں ہی ہیں اور اپنی عہدے پر موجود ہیں۔ہمسایہ ممالک سے تعلقات
پر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ پاکستان ایران سرحد پر باڑ لگانے کا معاملہ باہمی طور پر حل کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایران کا دورہ کیا تھا اور سرحدی باڑ پر ایران کے تحفظات دور کر دیے تھے۔شمالی اور جنوبی وزیرستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا
کہ پاکستان میں اب دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے نہیں ہیں لیکن چند عناصر موجود ہیں جو دوبارہ فعال ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں بیرونی ایجنسیوں کی جانب سے اسلحے اور مالی معاونت کی جا رہی ہے پاکستانی فوج ان دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔ افغان امن عمل پر بات کرتے ہوئے میجر جنرل بابر
افتخار نے کہا کہ نئی امریکی انتظامیہ افغان طالبان مذاکرات کے معاملے پر غور کر رہی ہے اور پاکستان کا اس معاملے پر یہی موقف ہے کہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے مذاکرات جاری رہنے چاہئیں اور اس میں تعطل بالکل نہیں آنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان امن مذاکرات کا حامی ہے۔فوجی ترجمان میجر جنرل بابر افتخار
نے صحافیوں کی جانب سے جبری طور پر لاپتہ افراد کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’مسنگ پرسنز کے معاملے پر بننے والے کمیشن نے بہت پیش رفت کی ہے اس کمیشن کے پاس چھ ہزار سے زائد افراد کے گمشدہ ہونے کے مقدمات تھے جن میں سے چار ہزار حل کیے جا چکے ہیں مسنگ پرسنز کا معاملہ بہت
جلد حل ہو جائے گا۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے اپنی گفتگو میں انکشاف کیا کہ گذشتہ ماہ بلوچستان کے علاقے کیچ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے گیارہ کان کنوں کے قتل سے تعلق کی بنا پر چند افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ بہت اہم گرفتاریاں ہیں لیکن ان کی مزید تفصیل دینے سے
معذرت کی۔یاد رہے کہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے ان افراد کے قتل کے خلاف گذشتہ ماہ کوئٹہ میں ایک دھرنا دیا گیا تھا جس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی کوئٹہ جا کر لواحقین سے تعزیت اور اس واردات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کروائی تھی۔گذشتہ کچھ عرصے کے دوران ملک کے سابق قبائلی
علاقوں، خاص طور پر شمالی وزیرستان میں شدت پسندی کے بڑھتے واقعات کے بارے میں ایک سوال پر فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں منظم شدت پسند تنظمیوں کو تو بہت عرصہ پہلے ختم کر دیا گیا تھا اور اب ان میں اس علاقے میں بڑا حملہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے لیکن کچھ عرصے سے ان علاقوں میں ایک بار پھر تشدد
کے اکا دکا واقعات رپورٹ کیے جا رہے ہیں پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے بچے کچے شدت پسندوں کے خلاف بہت جارحانہ کارروائیاں شروع کی ہیں اور تازہ تشدد اسی کا نتیجہ ہے آپ جب بھی شدت پسندوں کی پیچھے جاتے ہیں جارحانہ انداز میں تو اس کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے کہ ردعمل آتا ہے اور سکیورٹی فورسز کا بھی نقصان ہوتا ہے
اور عمومی طور پر بھی تشدد میں وقتی اضافہ ہوتا ہے۔جنرل بابر افتخار نے کہا کہ گذشتہ دنوں خواتین کی کار پر حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی مگر اب اس علاقے میں کوئی منظم گروہ باقی نہیں رہ گیا اور چھوٹے موٹے شدت پسند مختلف ناموں سے کارروائیاں کر رہے ہیں جن کا جلد ہی مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا۔انڈیا پاکستان مخالف
شدت پسندوں کی مدد کر رہا ہے اور اس کا علم افغان انٹیلی جنس کو بھی ہے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ پاکستان میں شدت پسندوں کی مدد افغانستان سے کی جا رہی ہے جہاں انڈیا ان تنظیموں کو ناصرف اسلحہ اور پیسے دے رہا ہے بلکہ نئی ٹیکنالوجی سے بھی نواز رہا ہے ہمارے پاس ایسے شواہد ہیں کہ جن سے ثابت
ہوتا ہے کہ پاکستان مخالف شدت پسندوں کو ناصرف اسلحہ اور پیسے مل رہے ہیں بلکہ نئی ٹیکنالوجی بھی دی جا رہی ہے۔ اس کا مقصد ان دہشت گردوں کی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔ایک سوال کے جواب میں فوجی ترجمان نے کہا کہ ’یہ بات بعید ازقیاس نہیں ہے کہ یہ سب کارروائی افغان انٹیلی جنس کے علم میں ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر میجر
جنرل بابر افتخار نے کافی تفصیل کے ساتھ افغانستان میں امن عمل اور فوجی انخلا پر بات کی جس میں انہون نے کہاکہ پاکستان ہر قیمت پر افغانستان میں امن چاہتا ہے اور اس سلسلے میں اس سے جو کچھ ہو سکتا تھا، وہ پاکستان کر چکا ہے پاکستان نے طالبان پر اپنا اثر و رسوِخ جس قدر ممکن تھا وہ استعمال کر لیا ہے۔ اس بات کی گواہی اب
تو افغان رہنما بھی دے رہے ہیں کہ پاکستان نے افغانستان میں امن کے لیے اخلاص کے ساتھ ہر ممکن کوشش کر لی ہے افغانستان کا مستقبل کیا ہو گا، مذاکرات آگے کیسے بڑھیں گے اور کس فریق کو کیا کرنا ہے، یہ سب افغانستان کے شہریوں اور حکومت کے کرنے کے کام ہیں۔ہمارا صرف ایک مقصد ہے اور وہ ہے افغانستان میں دیر پا امن کا
قیام۔انھوں نے زور دے کر کہا کہ اس بات پر ضرور دھیان دینا ہو گا کہ افغانستان میں خلا ہرگز پیدا نہ ہو پائے۔افغانستان سے اتحادی افواج کے ممکنہ انخلا اور اس کے بعد وہاں طالبان کی واپسی کے بارے میں ایک سوال پر فوجی ترجمان نے کہا کہ ’اب افغانستان بھی نوے کی دہائی والا نہیں ہے کہ اس کا ریاستی ڈھانچہ اتنی آسانی سے ڈھے جائے اور پاکستان بھی بدل چکا ہے۔ یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ کابل پر طالبان دوبارہ سے قابض ہوں اور پاکستان ان کی حمایت کرے۔