اسلام آباد (آن لائن) وزیراعظم عمران خان نے متحدہ عرب امارات کے ولی عہد اور اماراتی افوا ج کے ڈپٹی سپریم کمانڈر شیخ محمد بن زید النہیان سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے۔ ذرائع وزیراعظم ہاؤ س کے مطابق دونوں رہنماؤں کے درمیان پاکستان،متحدہ عرب امارات کے مابین موجودہ قریبی دوستانہ تعلقات کو مزید مضبوط اوربنانے اور
فروغ دینے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔گفتگو کے دورا ن دو طرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا اور اس کے علاوہ کرونا وائرس کی موجودہ صورتحال اور علاقائی و عالمی امور پر بھی غور کیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان اور یو اے ای کے ولی عہد نے دوطرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ عالمی تنظیموں میں تعاون کو مزید فروغ دینے کیلئے ملکر کام جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے این آر او دے دوں تو اپوزیشن کہے گی عمران خان سے زبردست کوئی آدمی نہیں انہیں جو کرنا ہے کرلیں، لانگ مارچ بھی کرلیں لیکن لوگ کبھی بھی چوروں کے لیے سڑکوں پر نہیں نکلتے۔ باہر بیٹھے لوگوں کو واپس لانے کی پوری کوشش کریں گے۔جب تک اپوزیشن کو اپنا جج یا نیب سربراہ نہ ملے یہ لوگ کسی چیز کو نہیں ما نیں گے۔ مسئلہ کشمیر بین الاقوامی معاملہ بن گیا ہے، نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کوئی بھی آج تک آبادی کے خلاف نہیں جیت سکا، جب ایک قوم فیصلہ کرلے کہ ہم نے آزاد ہونا ہے تو انہیں زیادہ دیر تک غلام نہیں بنایا جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ بھارت نے 5 اگست کو کشمیریوں کو دبانے کی پوری کوشش کی لیکن وہ ویسے کے ویسے ہی کھڑے ہیں بلکہ مزید پرعزم ہوئے ہیں، دنیا بھی سمجھ گئی ہے اور معاملہ پوری دنیا میں اٹھ
گیا ہے، مجھے امید ہے کہ اب یہ آزادی کی طرف جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ کشمیر کے لوگ 70 سال سے آزادی چاہتے تھے، مقبوضہ کشمیر میں اگر فوج نہ ہو تو وہ انہیں آزادی لینے سے کسی صورت نہیں روک سکتے، بھارت ایک بڑا ملک ہے اور اس کی بڑی منڈی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے
تجارتی مفادات ہیں لیکن جو یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کو ایف اے ٹی ایف میں دبا دیں گے وہ سب ناکام ہوگیا، انہوں نے پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کی لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ اس وقت دنیا میں پاکستان کی بات جس طرح سنی جارہی اس طرح پہلے نہیں تھی۔ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے حوالے سے نئی امریکی انتظامیہ سے رابطے سے متعلق انہوں نے کہا کہ ابھی اس بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا کہ ان کی پالیسی کیا ہے،