اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)نیب نے اثاثوں کی بازیابی کے لئے خدمات فراہم کرنے والی ایک اور فرم کو خاموشی سے 22 لاکھ 50 ہزار ڈالرز ادا کئے ۔ روزنامہ جنگ میں عمر چیمہ کی شائع خبر کے مطابق اس فرم انٹرنیشنل اسیٹس ریکوری (آئی اے آر) کی خدمات سابق وزیر اعظم
بے نظیر بھٹو مرحومہ اور انکے شوہر آصف علی زرداری کے بارے میں تفصیلات معلوم کر نے کے لئے حاصل کی تھیں ، تاہم بعد ازاں نیب نے اور براڈ شیٹ اور اس فرم کے ساتھ معاہدہ طریقہ کار پر عمل کئے بغیر- 2003 میں مستقل طور پر ختم کر دیا ۔ جن کے تصفیہ کے لئے پیشگی قانونی کارروائی سے گزرنا پڑا ۔ سمجھوتے کے لئے جہاں ایک غیر قانونی شخص سے 15 لاکھ ڈالرز کا جعلی سمجھوتہ کیا گیا وہیں آئی اے آر کو 22 لاکھ 50 ہزار ڈالرز کی خطیر رقم ادا کی گئی جس کا نیب نے کبھی انکشاف نہیں کیا یہ بات اسی وقت سامنے آئی جب برطانیہ کے ثالثی جج سر انتھونی ایوانز نے ثالثی کیس میں اس بات کو ریکارڈ کا حصہ بناتے ہوئے تقریبا ً2008 میں اس کا انکشاف کیا۔چونکہ ثالثی کیس آئی اے آر سے متعلق نہیں تھالہذا اس بارے میں تفصیلات بھی دستیاب نہیں ہیں ، تاہم ثالثی جج کے کہے سے رہنمائی لیتے ہو ئے جیری جیمز کے سابق معاونین کی فرم آئی اے آر نے نمائندگی کی ۔اپریل 2007 میں جب براڈ شیٹ کو
رسمی طور پر تحلیل کردیا گیاتو نیب نے اپنے وکیل احمد بلال صوفی کے ذریعہ آئی اے آر کے ساتھ مذاکرات کئے اور اے آراے کی طرز پر 2000 میں ۔فیصلے کے اقتباسات سمجھوتہ طے پایا ( لیکن یہ دنیا کے دیگر علاقوں سے متعلق تھا ) فیصلے کے اقتباسات کے مطابق جیمز
نے آئی اے آر کی نمائندگی کی اور بعد ازاں بھٹو خاندان کے ساتھ معاہدہ طے پایا جو کنٹریکٹ کی منسوخی کا باعث بنا ۔ تاہم سمجھوتے کی نقل کے مطابق براڈ شیٹ کو کرپشن کے ذریعہ بنائے گئے اثاثوں کی بازیابی میں نیب کی مدد کرنا تھی ۔اہداف کا تعین چئیر،مین نیب کی ہدایات کے مطابق
ہونا تھا ۔جہاں تک زر تلافی کا تعلق ہے براڈ شیٹ کو بازیاب رقوم کا 20 فیصد حاصل ہو تا ۔براڈ شیٹ کا کہنا ہے کہ نیب نے غیر قانونی طور پر معاہدہ ختم کر کے سمجھوتے کی خلاف ورزی کی ۔ براڈ شیٹ کا الزام ہے کہ نیب نے فراہم کردہ معلومات پر متعدد انفرادی اہداف سے خاموشی کے
ساتھ فراہم کردہ معلومات پر خاموشی سے معاملہ کیا حالانکہ براڈشیٹ نے معلومات کے حصول میں بھری رقم خرچ کی تھی لیکن نیب نے جواب میں معمولی پیسے دئے ۔اس وقت ملک کے صدر پرویز مشرف سمجھوتے کے وقت ملک کی مالی ساکھ کو بہتر بنانا چاہتے تھے لیکن
ثالثی جج کے مطابق 2000 کے اواخر میں سیاسی ہوئیں مخالف سمت میں چلنے لگیں اور اصلاحات کے ردعمل میں اصلاحات کے لئے مہم دم توڑنے لگی ۔ اس وقت کے چئیرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد اور پہلے پراسیکیوٹر جنرل فاروق آدم خان نے ناقابل قبول حالات کے باعث استعفے
دے دئے اور نیب کا مشن غیر قانونی اثاثوں کی بازیابی سے ہٹ کر کرپٹ اہداف کی بحالی پر ہو گیا ۔ جو بعد ازاں پاکستانی سیاست میں طاقت ور عناصر بن کر ابھرے ۔ مذکورہ فرام کا دعویٰ ہے کہ تب نیب نے کثیر تعداد میں اہداف کے ساتھ پلی بارگین اور تصفئے کئے جس سے براڈ شیٹ
کو آگاہ کیا گیا اور نہ ہی فرم کو ادائیگی کی گئی جس پر براڈ شیٹ نے آئزل آف جرسی میں نشزن زدہ اہداف کے 50 ڈالرز منجمد کردئے ۔ نیب نے اہداف سے ڈھائی کروڑ ڈالرز مالیت کے براہ راست سمجھوتے کئے لیکن براڈ شیٹ کو کمیشن کی ادائیگی نہیں کی گئی ،
ایڈمرل منصور الحق سے بازیاب رقم سے صرف معمولی سی فیس ادا کی گئی ۔نیب ترجمان نے اپنے ادارے کے موقف کی وضاحت کر تے ہوئے کہا کہ نیب ریاست کے مفاد ملکی وسائل کے تحفظ میں میں کام کر نے والا ایک آزاد ادارہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ نیب ملکی قوانین پر عمل کر نے والا ادارہ ہے اور وہ اپنے اقدامات کا متعلقہ اداروں میں دفاع کرے گا ۔