لاہور( این این آئی)اورنج لائن میٹروٹرین کو سٹڈی رپورٹ کے مطابق بلا تعطل بجلی فراہمی کے انتظامات تاحا ل نامکمل ہونے کا انکشاف ہوا ہے ،ٹرین کے آپریشنل ہونے تک 8میں سے 6سرکٹ سے بجلی فراہمی کے انتظامات ہو سکے ہیں ۔
نجی ٹی وی کے مطابق ٹرین کو چلانے کے لئے لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی نے آٹھ سرکٹ سے بجلی فراہم کرنا تھی تاہم آپریشنل ہونے تک چھ سرکٹ سے بجلی فراہم کے انتظامات کئے گئے ہیں اوردو سرکٹ سے بجلی سپلائی کرنے کا منصوبہ تاحال التواء کا شکار ہے ۔اورنج لائن میٹرو ٹرین کو بجلی دینے کے لئے سنگھ پورہ اور سکیم موڑ ملتان روڈ پر دو گرڈ اسٹیشنز بنائے گئے ہیں جنہیں آٹھ 8سرکٹ سے بجلی دی جانی تھی ۔ شالیمار میں 4کی بجائے 2سرکٹ سے بجلی فراہم کی جائے گی ، فتح گڑھ اور شالا مار گرڈ اسٹیشنز سے اورنج لائن میٹرو ٹرین کو بجلی دی جائے گی،بند روڈ اور سید پور گرڈ اسٹیشن سے دو ، دو سرکٹ نکال کر بجلی دی گئی ہے ۔دریں اثناچین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت مکمل ہونے والے اورنج لائن میٹر و ٹرین منصوبے کے نمایاں خدو خال کچھ اس طرح سے ہیں۔ ٹرین علی ٹائون تا ڈیرہ گجراں27کلو میٹر کا فیصلہ صرف 45منٹ میں طے کرے گی ۔ مسافروں کی سہولت کیلئے ہر کلو میٹر پر اسٹیشن
بنایا گیا ہے ۔ عالمی معیار کے طرز پر 24ایلیو ویٹڈ اور 2انڈر گرائونڈ اسٹیشنز بھی بنائے گئے ہیں ۔ ہر پانچ منٹ کے بعد ٹرین کی آمد ہو گی ۔ ٹرین میں خواتین ، معذور افراد اور بزرگ مسافروں کیلئے مخصوصی نشستیں رکھی گئی ہیں ۔ ایم اے او کالج پر اورنج لائن میٹرو ٹرین اور
میٹرو بس سروس کے درمیان باہمی سفر ی منتقلی کی سہولت بھی دی گئی ہے ۔ ٹرین کا یکطرفہ کرایہ 40روپے مقرر کیا گیا ہے ۔ دوسری جانب اس منصوبے کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹیں بھی آتی رہیں ۔ منصوبے کا افتتاح اکتوبر 2015ء میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف
نے کیا جسے 25دسمبر 2017کو مکمل ہونا تھا لیکن کچھ وجوہات کی بناء پر منصوبہ غیر معمولی تاخیر کا شکار ہوگیا اور اس کی لاگت بھی بڑھ گئی ۔شہباز شریف نے منصوبے کے امور کو دیکھنے کے لئے سینئر لیگی رہنما خواجہ احمد حسان کی سربراہی میں سٹیئرنگ کمیٹی قائم کی
تھی جس کی 104میٹنگز ہوئیں ، کمیٹی میں منصوبے پر پیشرفت کا جائزہ لیا جاتا تھا۔ اس وقت کے وزیرا علیٰ شہباز شریف بھی وقتاً فوقتاً منصوبے پر جاری کام کا جائزہ لینے کیلئے اچانک دورے کرتے رہے ۔ میٹرو ٹرین کے روٹ پر کئی تاریخی عمارتیں بھی ہیں جس کی وجہ سے
تاریخی عمارتوں اور ورثوں کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے مظاہرے بھی کئے گئے جبکہ اس حوالے سے معاملہ یونیسکو میں بھی لے جایا گیا ۔ منصوبے کے گیارہ مقامات کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا گیا اور اس پر حکم امتناعی لیا گیا
جس کی وجہ سے ان مقامات پر کام رکا رہا اور منصوبہ غیر معمولی تاخیر کا شکار ہونے سے اس کی لاگت میں اربوں روپے کا اضافہ ہو گیا ۔ میٹرو ٹرین کے روٹ پر کئی تاریخی مقامات بھی ہیں جن میں شالیمار باغ ، دائی انگہ کا مقبرہ، لکشمی مینشن، چوبرجی ، مہر النساء کا مقبرہ اور تاریخی چرچز شامل ہیں ۔