اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے طے پانے والے معاہدے پر متنبہ کیاہے کہ یہ امن کے لئے ایک قدم پیچھے ہے اور مسلم دنیا کو ”متحارب دھڑوں” میں تقسیم کردے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ جنوب مشرقی ایشیائی ملک اور مشرق وسطیٰ میں دہشت گردی کے حملوں کا سبب بن سکتا ہے۔
یہ اسرائیل کے اس موقف کو تقویت بخشے گا کہ فلسطین کا تعلق اسرائیل سے ہے۔ دوسری جانب ترکی نے اسرائیل سے امن معاہدہ طے کرنے پر متحدہ عرب امارات کے ساتھ سفارتی تعلقات معطل کرنے کی دھمکی دی ہے حالانکہ اس کے اپنے اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات استوار ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ یو اے ای سے تعلقات معطل کرنے کے علاوہ ابوظبی میں متعین ترک سفیر کو واپس بلانے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔ترک وزارتِ خارجہ نے الگ سے ایک ایک بیان میں کہا کہ تاریخ یو اے ای کو اسرائیل سے ڈیل طے کرنے اورمنافقانہ کردار پر کبھی معاف کرے گی۔ترک صدر نے معاہدے کے ردعمل میں مزید کہا کہ فلسطینیوں کے خلاف یہ اقدام ہضم نہیں کیا جاسکتا۔فلسطین اگر یو اے ای میں اپنے سفارت خانہ کو بند کرتا ہے یا اپنے سفیر کو واپس بلا لیتا ہے تو ہم بھی یہی کریں گے۔انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے وزیرخارجہ کو اس ضمن میں احکامات دے دیے ہیں۔انھوں نے کہا کہ میں نے وزیرخارجہ سے کہا ہے کہ ہم بھی ابوظبی کی قیادت کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کررہے ہیں یا پھر اپنے سفیر کو واپس بلا رہے ہیں۔ترک وزارت خارجہ نے قبل ازیں بیان میں کہا کہ فلسطینیوں نے درست طور پر اسرائیل اور یو اے ای کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کو مسترد کردیا ہے۔اس نے کہاکہ تاریخ اور خطے کے لوگوں کا ضمیر اس منافقانہ کردار کو کبھی فراموش اور معاف نہیں کرے گا۔انتہائی تشویش کی وجہ تو یہ ہے کہ یو اے ای نے 2002 کے عرب امن اقدام کے ساتھ آگے بڑھنے کے بجائے یک طرفہ اقدام کیا ہے۔