نیویارک (این این آئی )بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، افغانستان اور پاکستان (میناپ) کے خطے پر مبنی رپورٹ میں نمو کی پیش گوئی اپریل سے بھی کم کرتے ہوئے معاشی سست روی سے خبردار کردیا۔اس سے قبل آئی ایم ایف نے ایسی پیش گوئیاں کورونا وائرس کے آغاز پر جاری کی تھی۔
میڈیارپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف کے مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا ڈویڑن (ایم سی ڈی) کے ممالک کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘2020 میں ایم سی ڈی خطے کی اصل جی ڈی پی میں 4.7 فیصد کمی متوقع ہے جو اپریل 2020 کے خطے کے معاشی نقطہ نظر کے مقابلے میں 2 فیصد کم ہے اور اس عرصے کے دوران عالمی نمو کی نظرثانی کے عین مطابق ہے۔2020 کے دوسرے نصف حصے میں نمو کی پیش گوئی میں کمی کا بیشتر حصہ تیل کے برآمد کنندگان کے لیے بگڑتا ہوا نقطہ نظر ہے جن کی برآمدات میں 2019 کے مقابلے میں 270 ارب ڈالر کی کمی دیکھی جاسکتی ہے، جو توقع سے کہیں زیادہ ہے۔مصر اور پاکستان سمیت میناپ خطے میں تیل درآمد کرنے والے ممالک کے لیے رپورٹ میں کہا گیا کہ تیل کی کم قیمتوں سے حاصل ہونے والے فوائد ا تجارت میں رکاوٹ، سیاحت، ترسیلات زر، سخت عالمی مالیاتی حالات اور مقامی اخراجات کے نتائج کو متوازن کررہے ہیں جو وبا کو روکنے کے اقدامات کے ساتھ نمو کو متاثر کررہے ہیں۔اس گروہ میں پاکستان اور مصر 2 ممالک ہیں جن کی نمو کی پیش گوئی ان کے متعلقہ حکام کی جانب سے پہلے ہی بتائی گئی نمو سے تبدیل نہیں ہوئی اور ان میں ایک فیصد کمی آئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان دونوں ممالک نے خطے کے تمام ممالک کے مقابلے میں شرح سود میں سب سے زیادہ کمی کی ہے۔آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان اور مصر نے شرح سود میں بالترتیب 525 بیسس پوائنٹس اور 300 بیسس پوائنٹس کی کمی کی، پاکستان نے جون کے اواخر میں شرح سود میں مزید 100 بیسس پوائنٹس کی کمی کی۔خطے کے 16 ممالک نے امریکی فیڈرل ریزرو کے عین مطابق اپنی شرح سود میں تقریباً 150 بیسس پوائنٹس کمی کی، حالانکہ خطے میں 9 مرکزی بینکس نے بھی ایک ہی وقت میں معیشتوں میں بہت بڑے لیکویڈیٹی انجیکشن (40 بلین ڈالر سے زائد کے) میں حصہ لیا تھا۔
پاکستان ان ممالک میں بھی شامل ہے جنہوں نے کچھ مداخلتوں کے باوجود زرمبادلہ کی شرح کو معاشی دھچکا برداشت کرنے کے لیے استعمال کی اجازت دی ہے۔رپورٹ کے مطابق ایم سی ڈی میں پیکیج کا اوسط حجم دراصل دنیا کے کسی بھی خطے سے چھوٹا تھا، جو تیل درآمد کنندگان کے درمیان پالیسی کی گنجائش کی عکاسی کرتا ہے اور معیشت میں بیشتر تیل برآمد کنندگان کے لیے حکومت کو بڑی مدد حاصل ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا مالی محرک، جی ڈی پی کا تقریباً 2 فیصد ہے جودیگر ممالک کے اعلان کردہ محرک کے اوسط حجم کے برابر ہے، اس میں بحرین (تقریباً فیصد کے ساتھ ) سرفہرست ہے اور یمن سب سے آخر میں ہے۔