اسلام آباد (این این آئی) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے زیر اہتمام بلوچستان کے حوالے سے منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس نے اٹھارہویں ترمیم بارے حکومتی بیانات پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے گا کوئی ردوبدل قبول نہیں ،
دسویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت 57 فیصد حصہ متعین ہے جس میں کوئی کمی قبول نہیں ہوگی ،18ویں آئینی ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ میں ترمیم کی گئی تو ہر سطح پر مزاحمت کی جائے گی ،پارلیمنٹ کے اختیارات کو سلب کرنے، ڈمی اور غیر سیاسی عناصر کو آگے لانے کی مذمت کرتے ہیں ،ملک کو بحرانوں سے منتخب ارکان ہی نکال سکتی ہیں ،بلوچستان میں ایف سی کے اقدامات ختم اور لاپتہ افراد بازیاب کرائے جائیں ، سی پیک پر بلوچستان کے تحفظات کو دور کیا جائے ،صوبائی حکومت ٹڈی دل کے معاملے پر ناکام ہوچکی ، اس کا تدارک کیا جائے ،کورونا عالمی وبا ہے ،عام آدمی کے علاج معالجے کے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی ذمہ دار وفاقی و صوبائی حکومتیں ہیں ،تربت، کیچ اور ہزارہ ٹاؤن کے واقعات میں ملوث قاتلوں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے ،صوبہ میں ڈیتھ سکواڈ کو ختم اور جعلی ڈومیسائل کا سلسلہ بند کیا جائے ،سینیٹ کے اختیارات میں اضافہ کیا جائے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بدنیتی پر ریفرنس دائر کرنے پر سپریم کورٹ کو سزا تجویز کرنی چاہیے۔ بلو چ رہنما اختر مینگل کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ جے یو آئی بلوچستان کے زیر اہتمام اے پی سی بلوچستان کی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ہوئی جس میں ملکی اور قومی معاملات زیر بحث آئے ۔
انہوں نے کہاکہ اٹھارہویں ترمیم بارے حکومتی بیانات تشویشناک ہیں،اجلاس میں شرکائ18ویں ترمیم کے حوالے سے حکومتی عزائم پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ اٹھارہویں ترمیم پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے گا کوئی ردوبدل قبول نہیں ۔ انہوںنے کہاکہ دسویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت 57 فیصد حصہ متعین ہے جس میں کوئی کمی قبول نہیں ہوگی ۔ انہوں نے کہاکہ 18ویں آئینی ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ میں ترمیم کی گئی تو ہر سطح پر مزاحمت کی جائے گی ۔
انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ کے اختیارات کو سلب کرنے، ڈمی اور غیر سیاسی عناصر کو آگے لانے کی مذمت کرتے ہیں ،ملک کو بحرانوں سے منتخب ارکان ہی نکال سکتی ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں ایف سی کے اقدامات کو ختم کرنے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں ،ملک بھر میں غیر قانونی گرفتاریوں کی بھی مذمت کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ سی پیک میں بلوچستان کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے، بلوچستان کے تمام تحفظات کو دور کیا جائے ۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں ٹڈی دل کے حوالے سے حکومت کی لاپرواہی اور کوتاہی کی مذمت کرتے ہیں ۔
مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ صوبائی حکومت ٹڈی دل کے معاملے پر ناکام ہوچکی ، اس کا تدارک کیا جائے ۔ انہوںنے کہاکہ کورونا ایک عالمی وبا، عام آدمی کے علاج معالجے کے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی ذمہ دار وفاقی و صوبائی حکومتیں ہیں ۔ انہوںنے کہاکہ تربت، کیچ اور ہزارہ ٹاؤن کے واقعات کی پرزور مذمت کرتے ہیں، قاتلوں کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے ۔ انہوں نے کہاکہ صوبہ میں ڈیتھ سکواڈ کے خاتمے، تفتان میں تجارتی سرگرمیاں مکمل بحال کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ صوبے میں جعلی ڈومیسائل کا سلسلہ بند کیا جائے ،سینیٹ کے اختیارات میں اضافہ کیا جائے۔ اختر مینگل نے کہاکہ پاکستان کی پارلیمان تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ حکومتی اتحاد سے علیحدہ پارلیمان میں کھڑے ہوکر کیا ،ہم اپنے تحفظات سے حکومت کو گاہے بگاہے آگاہ کرتے رہے،بلوچستان میں اب بھی ہم اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے ہیں، ہم سیاسی لوگ ہیں ،ہم پہلے بھی آزاد بینچز پر بیٹھے تھے اور آج بھی ہم آزاد بینچز پر بیٹھیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت میں جانا شاید اب میرے بس میں نہیں یہ ہماری پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا فیصلہ ہے ۔
انہوں نے کہاکہ اگر حکومت سنجیدہ ہے تو بلوچستان کے مسائل کرے ایسا ہوا تو پورا صوبہ پی ٹی آئی جوائن کر لے گا ۔ انہوں نے کہاکہ جب ہم نے حکومت کا ساتھ چھوڑ دیا تو فنانس بل کی حمایت پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ جیسی ہوگی،فنانس بل کی حمایت نہیں کریں گے۔مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ پی ٹی آئی اور باپ پارٹی میں کوئی فرق نہیں ،دونوں جماعتیں جڑواں بہنیں ہیں، صوبائی حکومت کی تبدیلی کا فیصلہ صوبائی اپوزیشن خود کریگی ۔ انہوں نے کہاکہ تحریک عدم اعتماد ایک آئینی راستہ ہے مگر سینیٹ الیکشن ہمارے سامنے ہے ، پہلے اس حوالے سے صورتحال کا جائزہ لینا ضروری ہے۔مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ قاضی فائز عیسیٰ نے بہت اچھے طریقے سے کیس لڑا اور ان کی اہلیہ نے بھی اچھے انداز میں اپنا مدعا پیش کیا ،حکومت نے بدنیتی کی بنیاد پر ریفرنس دائر کیا جسے کالعدم قرار دیا گیا ، ایسی بدنیتی کا نوٹس عدالت کو لینا چاہئے ، انہوں نے کہاکہ بدنیتی پر ریفرنس دائر کرنے پر بھی سپریم کورٹ کو سزا تجویز کرنی چاہیے۔