ہفتہ‬‮ ، 02 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

کورونا کے باعث معیشت کو3 کھرب نقصان کا اندیشہ ،عوام کو زیادہ ریلیف نہیں دے سکتے،مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے ہاتھ کھڑے کر دئیے

datetime 13  جون‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے دعویٰ کیا ہے کہ مالی سال 20-2019 کے ابتدائی 9 ماہ میں حکومت کو بڑی کامیابیاں ملیں تاہم کورونا وائرس سے معیشت کو 3 کھرب روپے کا نقصان ہونے کا اندیشہ ہے، اگر اس بحران آنے سے پہلے والی صورتحال برقرار رہتی تو ہم ریونیو کو 4 ہزار ارب تک پہنچا سکتے تھے،ہم نے اسٹیٹ بینک سے ایک ٹکا بھی نہیں لیا ۔

اپنے اخراجات آمدن سے کم رکھے ،آگے بھی اخراجات کو قابو میں رکھیں گے ،کورونا وائرس کوئی بہانہ نہیں ہے یہ ایک حقیقت ہے ، دنیا بھر کی آمدنی کو 4 فیصد نقصان ہونے کا امکان ہے،کورونا وائرس کے شدید اثرات سے نمٹنے کیلئے حکومت نے ایک اچھا پیکج دیا ، اب آگے کی جانب دیکھنا ہے،پاکستان کو سب سے بڑا مسئلہ قرض کی واپسی کا ہے ،رواں سال 2 ہزار 900 ارب روپے ادا کرنے ہیں اس میں ہمارا قصور نہیں ،اگر قرض کی ادائیگی نہ کرنی ہوتی تو احساس پروگرام جیسے 20 پروگرام دئیے جاسکتے تھے، لوگ قرض لینے کی بات کرتے ہیں ،ہم قرض اپنی عیاشی، وزیراعظم ہاؤس یا ایوانِ صدر یا سول حکومت کے اخراجات کیلئے نہیں لے رہے ، ہمیں ماضی کے قرض کی ادائیگی کرنی ہے ،ملک پر قرض کے باعث عوام کو زیادہ ریلیف نہیں دے سکتے،عوام پر بوجھ نہ ڈالنے کے لیے ہم نے نئے ٹیکسز نہیں لگائے،ہزاروں قسم کے درآمدی خام مال پر ڈیوٹی کو ختم کیا جارہا ہے،10 قسم کے ودِ ہولڈنگ ٹیکس کو ختم کیا جارہا ہے ، متعدد ایسے سیکٹرز ہیں جنہیں کئی مراعات دی جارہی ہیں،سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی میں 25 پیسے فی کلو گرام کمی کی جارہی ہے،کاروباری آسانیوں کے لیے متعدد قوانین میں بھی تبدیلیاں کی جارہی ہیں اور حکومت پورا سال نگرانی کرے گی جہاں پالیسی میں کوئی رکاوٹ آئی وہاں ردِ عمل دیا جائیگا۔

ٹیکس نیٹ بڑھانا چاہتے ہیں لیکن کوئی چیز یقینی نہیں،معلوم نہیں کورونا وائرس کب تک رہے گا،معیشت بحال ہو گئی تو ایک ہزار ارب روپے کے اضافی ٹیکس حاصل کر لیں گے۔ ہفتہ کو وفاقی وزیر حماد اظہر ، مشیر برائے تجارت عبد الرزاق دائودسمیت اپنی اقتصادی ٹیم کے ہمراہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ بجٹ بہت مشکل والے سال میں دیا گیا،بجٹ لوگوں کو ریلیف دینے کیلئے بنایا گیا،اس مالی سال کے پہلے نو ماہ میں بڑی کامیابیاں ملیں تاہم کورونا کے باعث مشکلات ہوئیں۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ نے کہاکہ جب ہم حکومت میں آئے واجبات 30 ہزار ارب روپے تھے جس میں سے 2 سال کے عرصے میں 5 ہزار ارب روپے واپس کیے گئے۔مشیر خزانہ نے بتایا کہ موجودہ مالی سال کے دوران 2 ہزار 700 ارب روپے واپس کیے گئے حالانکہ صوبوں کو ادائیگی کے بعد وفاقی حکومت کی آمدن 2 ہزار ارب روپے بنتی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنے اخراجات کو قابو میں رکھیں گے اسی لیے اسٹیٹ بینک سے ٹکا بھی نہیں لیا گیا اور پرائمری سرپلس حاصل کیا، اپنے اخراجات آمدن سے کم رکھے۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو 20 ارب ڈالر سے 3 ارب ڈالر تک کم کیا اور کمزور طبقے کی مدد کے لیے 2 کھرب روپے مختص کیے۔مشیر خزانہ نے کہا کہ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 11 سو ارب روپے تھا لیکن 16 سو ارب روپے حاصل کیے گئے جو بہت بڑی کامیابی تھی اور عالمی اداروں نے پاکستان کی کاردکردگی کو سراہا۔انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے معیشت کو 3 کھرب روپے کا نقصان ہونے کا اندیشہ ہے، اگر اس بحران آنے سے پہلے والی صورتحال برقرار رہتی تو ہم ریونیو کو 4 ہزار ارب تک پہنچا سکتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کوئی بہانہ نہیں ہے یہ ایک حقیقت ہے اور اس سے دنیا بھر کی آمدنی کو 4 فیصد نقصان ہونے کا امکان ہے۔مشیر خزانہ نے بتایا کہ ایک کروڑ 60 افراد کو نقد رقم فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس میں سے ایک کروڑ سے زائد گھرانوں کو یہ رقم فراہم کی جاچکی ہے۔ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہاکہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ میں دگنا اضافہ ہوا لیکن کورونا وائرس آیا اور اس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچا۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ جب دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں کم ہوئی تو حکومت نے فیصلہ کیا کہ جتنا زیادہ فائدہ عوام کو پہنچایا جاسکے پہنچایا جائے۔انہوں نے بتایا کہ کورونا وائرس کے شدید اثرات سے نمٹنے کے لیے حکومت نے ایک اچھا پیکج دیا لیکن اب آگے کی جانب دیکھنا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کو سب سے بڑا مسئلہ قرض کی واپسی کا ہے اور اس سال 2 ہزار 900 ارب روپے ادا کرنے ہیں اس میں ہمارا قصور نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت تو چاہتی ہے کہ احساس پروگرام کو دگنا اور 3 گنا کردیا جائے اور اگر یہ قرض کی ادائیگی نہ کرنی ہوتی تو ایسے 20 پروگرام دیے جاسکتے تھے لیکن چونکہ ہمیں ان قرضوں کی ادائیگی کرنی ہے تو اس کے لیے کہیں سے گنجائش پیدا کرنی ہوگی ۔

اس لیے حکومتی اخراجات میں کمی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔مشیر خزانہ نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بھی قرض لے رہے ہیں تو ہم قرض اپنی عیاشی، وزیراعظم ہاؤس یا ایوانِ صدر یا سول حکومت کے اخراجات کے لیے قرض نہیں لے رہے بلکہ ہمیں ماضی کے قرض کی ادائیگی کرنی ہے اس لیے قرض لے رہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ عوام پر بوجھ نہ ڈالنے کے لیے ہم نے نئے ٹیکسز نہیں لگائے۔مشیر خزانہ نے کہا کہ اسے ریلیف بجٹ اس لیے کہا جارہا ہے کیوں کہ اس میں سے کئی ٹیکسز کم کیے گئے۔تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ہزاروں قسم کے درآمدی خام مال پر ڈیوٹی کو ختم کیا جارہا ہے تا کہ کاروبار کی لاگت کم ہو اور لوگ اپنے کاروبار وسیع کرسکیں اور نوکریاں دے سکیں۔

انہوں نے بتایا کہ مزید 200 ٹیرف لائن میں ڈیوٹی کو صفر نہیں البتہ کم کیا جارہا ہے اس کے علاوہ 166 ٹیرف لائن ہیں جس میں ٹی وی کمبلوں کی درآمد شامل ہے اس میں بھی کمی کی گئی۔انہوں نے بتایا کہ 10 قسم کے ودِ ہولڈنگ ٹیکس کو ختم کیا جارہا ہے اور متعدد ایسے سیکٹرز ہیں جنہیں کئی مراعات دی جارہی ہیں اس میں کنسٹرکشن سیکٹر کو کئی مراعات دی جارہی تا کہ نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں۔اسی طرح سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی میں 25 پیسے فی کلو گرام کمی کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو سے آٹومیشن کے ذریعے منسلک ہول سیلرز کو بھی آسانیاں دی جارہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے متعلق اشیا کٹس وغیرہ پر ٹیکس کو ختم کیا جارہا ہے۔مشیر خزانہ نے کہا کہ اس بڑے پیمانے پر ریلیف دینے کا مقصد یہ ہے کہ ہم نجی شعبے کو مراعات دے کر نوکریاں پیدا کرے۔انہوں نے کہاکہ کاروباری آسانیوں کے لیے متعدد قوانین میں بھی تبدیلیاں کی جارہی ہیں اور حکومت پورا سال نگرانی کرے گی جہاں پالیسی میں کوئی رکاوٹ آئی وہاں ردِ عمل دیا جائے گا۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ دنیا کے ادارے ہمارے ساتھ کھڑے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں ہمارے ہاتھ لوگوں کی جیبوں پر نہیں اور ہم اس طرح نہیں چلنا چاہتے کہ ہمارے خاندان ہوں ان کے کاروبار ہوں۔پریس کانفرنس کے بعد پوچھے گئے سوالات کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ایف بی آر کے ریونیو ٹارگٹ اسلئے بڑھایا گیا کہ کم از کم ہم کوشش تو کریں آمدن کی اسلئے ہم اضافی ٹیکس نہیں لگارہے اور ٹیکس نیٹ بڑھانا چاہتے ہیں لیکن کوئی چیز یقینی نہیں کیوں کہ معلوم نہیں کورونا وائرس کب تک رہے گا۔

انہوں نے کہاکہ دنیا کے بڑے ادارے ہمارے ساتھ کھڑے ہیں،ہم لوگوں کی جیبوں میں ہاتھ نہیں ڈالنا چاہتے،ہماری تمام کوششوں کا محور عوام کی بہتری اور مفاد ہے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کا بچت اور سرمایہ کاری نہ بڑھانا تاریخی ناکامی ہے،بچتوں کو فروغ دینے میں تمام حکومتیں ناکام رہیں۔ انہوں نے کہاکہ معیشت بحال ہو گئی تو ایک ہزار ارب روپے کے اضافی ٹیکس حاصل کر لیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ہم لوگوں کیلئے آسانی چاہتے ہیں ٹیکس کیلئے مشکلات پیدا نہیں کریں گے،۔صوبے اپنا بجٹ اپنے اندازے سے بنائیں۔ وفاقی ووزیر صنعت حماد اظہر نے کہاکہ نوکریوں کو انجن نجی شعبہ ہے،کاروبار میں آسانی پیدا کی جائیں گی۔ مشیر تجارت نے کہاکہ جب ڈیوٹی کم ہو گی تو صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کرے گا،برآمدات کو بڑھانے کیلئے رکاوٹوں کو دور کرنا بھی ضروری ہے

موضوعات:



کالم



آرٹ آف لیونگ


’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…

فیک نیوز انڈسٹری

یہ جون 2023ء کی بات ہے‘ جنرل قمر جاوید باجوہ فرانس…

دس پندرہ منٹ چاہییں

سلطان زید بن النہیان یو اے ای کے حکمران تھے‘…

عقل کا پردہ

روئیداد خان پاکستان کے ٹاپ بیوروکریٹ تھے‘ مردان…

وہ دس دن

وہ ایک تبدیل شدہ انسان تھا‘ میں اس سے پندرہ سال…

ڈنگ ٹپائو

بارش ہوئی اور بارش کے تیسرے دن امیر تیمور کے ذاتی…