اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں کہا ہے کہ ریفرنس فائل کرنا کوئی چھوٹا معاملہ نہیں ہے ، صدر مملکت آرٹیکل 48 کے تحت ریفرنس نا مکمل ہونے پر واپس بھیج سکتے ہیں، صدر مملکت ریفرنس بھجوانے کے مشورے پر عمل کرنے کے پابند نہیں ،صدر مملکت مشورے پر ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھجوانے کے پابند ہیں یہ غلط دلیل ہے،
عدالت کے سوالات ریفرنس کی مبینہ بدنیتی پر ہیں، اثاثہ جات وصولی یونٹ (اے آر یو) ،اس کے کرداراور قانونی سوال کیے گئے ہیں،شکایت صدر کو بھیجنے کے بجائے اے آر یو کو پذیرائی کیوں دی، اے آر یو نے جج کے مس کنڈکٹ کا تعین کیسے کر لیا؟، اس حکومتی شخصیت کا نام بتائیں جس نے تعین کیا جسٹس فائز عیسیٰ مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے،بتا دیں کہ معاملہ ٹیکس اتھارٹی کو بھیجنے کے بجائے ریفرنس بنانے کی تجویز کس نے دی، آپ یہ بتا دیں کہ ریفرنس میں جرم آپ نے کونسا بتایا ہے،10 ہزار ٹیکس کی عدم ادائیگی پر ریفرنس نہیں بن جاتا، ایسا جرم بتائیں جس سے جج پر اعتماد مجروح ہوا ہو، جو سوالات اٹھائے ہیں ان کے جواب دیں۔تفصیلا ت کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے اپنے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے کا معاملہ جمعرات کو بھی زیر سماعت رہا ،مسلسل تیسرے روز کیس کی سماعت کے دوران فل کورٹ نے حکومتی وکیل فروغ نسیم سے تندو تیز سوالات کیے اور ان پر زور دیا کہ وہ اْس حکومتی شخصیت کا نام بتائیں جس نے تعین کیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے جبکہ بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے سابق وزیراطلاعات کی بات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ لگتا ہے یہ ریفرنس صرف کریز سے باہر نکل کر شاٹ لگانے پر بنا۔ جمعرات کو عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کی۔خیال رہے صدر مملکت
ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس بھیجا گیا تھا جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تھا۔اس معاملے پر اب تک طویل سماعتیں ہوچکی ہیں جبکہ سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان اس کیس میں پہلے وفاق کی نمائندگی کر رہے تھے تاہم ان کے مستعفی ہونے کے بعد نئے اٹارنی جنرل نے مذکورہ معاملے میں حکومتی نمائندگی سے انکار کردیا تھا۔بعد ازاں مذکورہ معاملے کی
24 فروری ہونے والی آخری سماعت میں عدالت نے حکومت کو اس معاملے کے ایک کْل وقتی وکیل مقرر کرنے کا کہا تھا،جس کے بعد مذکورہ معاملے میں وفاقی کی نمائندگی کے لیے فروغ نسیم نے وزیر قانون کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اب وہ اس کیس میں پیش ہورہے ہیں۔مسلسل تیسرے روز کیس کی سماعت ہوئی تو فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوئے اور دلائل دینا شروع کیے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ عدالت نے
سوالات سے مجھے بہت معاونت فراہم کی، 27 ایسے قانونی نکات ہیں جن پر دلائل دوں گا۔اس پر بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالت کے سوالات ریفرنس کی مبینہ بدنیتی پر ہیں، عدالت نے اثاثہ جات وصولی یونٹ (اے آر یو) ،اس کے کرداراور قانونی سوال کیے ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ شکایت صدر مملکت کو بھیجنے کے بجائے اے آر یو کو پذیرائی کیوں دی جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ
میں عدالت کے سوالوں پر بھی آؤں گا، پہلے مجھے حقائق بیان کرنے دیں اس میں مقدمے کو سمجھانے میں آسانی ہو گی۔اسی دوران جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ صدر مملکت اور وزیراعظم کی وکالت کون کر رہا ہے، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ صدر مملکت کی وکالت ڈپٹی اٹارنی جنرل سہیل محمود اور وزیراعظم کی طرف سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن کریں گے۔حکومتی وکیل کی بات پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ
فروغ نسیم آپ اپنے انداز سے دلائل دیں اور آگے بڑھیں، ساتھ ہی جسٹس مقبول باقر نے پوچھا کہ صدر مملکت نے ریفرنس کے مواد پر اپنی رائے کیسے بنائی؟اس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ صدر مملکت پیشے کے اعتبار سے دندان ساز ہیں، وزیر اعظم کرکٹر رہے ہیں اور سیاست کی ہے، صدر مملکت وزیراعظم کے مشورے پر عمل کرتے ہیں۔فروغ نسیم کے مطابق اس قسم کی سمریوں پر اسٹدیز اور متعلقہ وزارتوں سے
رائے لی جاتی ہے، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 209 کے اختیارات بڑے منفرد ہیں، صدر مملکت کا کردار جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھجوانے پر بڑا اہم ہے۔عدالتی بینچ کے رکن کی جانب سے اس بات کے ساتھ ہی جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ کہا کہ آرٹیکل 209 محض ایک آرٹیکل نہیں ہے بلکہ یہ عدلیہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ریفرنس کے مواد پر صدر کو
اپنا ذہن استعمال کرنا ہوتا ہے، ریفرنس فائل کرنا کوئی چھوٹا معاملہ نہیں ہے، صدر مملکت آرٹیکل 48 کے تحت ریفرنس نا مکمل ہونے پر واپس بھیج سکتے ہیں، صدر مملکت ریفرنس بھجوانے کے مشورے پر عمل کرنے کے پابند نہیں ہیں۔بینچ کے سربراہ نے کہا کہ صدر مملکت مشورے پر ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھجوانے کے پابند ہیں یہ غلط دلیل ہے۔سماعت کے دوران حکومتی وکیل نے بیرون ملک اثاثے ہونے کے
معاملے کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہا کہ بیرون ملک سے اثاثے لانے کا معاملہ کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا۔انہوں نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے غیر ملکی اثاثے واپس لانے کے لیے ایک ٹاسک فورس بنائی جبکہ اس وقت شہزاد اکبر وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب ہیں۔اسی دوران جسٹس مقبول باقر نے یہ
ریمارکس دیے کہ شہزاد اکبر کی اہلیت اور صلاحیت باقی جگہوں پر بھی نظر آنی چاہیے تھی۔جسٹس عمر عطا ء نے پوچھا کہ اب تک اے آر یو کی کارکردگی کیا ہے؟ جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ٹاسک فورس بنانے کے فیصلے کے نتیجے میں اے آر یو کا قیام عمل میں آیا، کابینہ نے ہی ٹاسک فورس کے
قواعد و ضوابط کی منظوری دی۔عدالت میں طویل سماعت کے موقع پر بینچ کے ایک اور رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ 28 اگست کو شہزاد اکبر معاون خصوصی بنے اور اسی دن ہی ٹاسک فورس کے قواعد و ضوابط بھی بن گئے، ایک ہی تاریخ میں سارا کام کیسے ہوگیا؟اس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ شہزاد اکبر کو اثاثہ جات کے معاملے پر مکمل عبور ہے، تاہم جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ فروغ نسیم اے آر یو کے
بارے میں ہمیں کچھ بتادیں، اے آر یو کی انکوائری پر مواد صدر مملکت کے سامنے رکھا گیا۔بینچ کے ایک اور رکن جسٹس منیب اختر نے یہ بات کہی کہ فروغ نسیم آپ کے پاس سوالوں کی قطار ہے جن کے جواب دینے ہیں۔بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ صدر مملکت کی رائے آزاد ہوتی ہے یا کسی پر منحصر ہوتی ہے، یہ بڑا اہم سوال ہے پہلے دیگر اہم چیزوں کو مکمل کریں۔ نجی ٹی وی کے مطابق
جسٹس یحییٰ آفریدی نے پوچھا کہ یہ بتا دیں کہ عدالت عظمیٰ نے اے آر یو بنانے کا حکم کہاں دیا؟ جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ اے آر یو رولز آف بزنس کے تحت بنایا گیا، میری یہ دلیل نہیں کہ عدالت کے حکم پراے آر یو کو بنایا گیا۔اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اے آر یو کا قانون کے تحت بنے اداروں پر تھرڈ پارٹی اطلاق کیسے ہو سکتا ہے؟جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ اثاثوں کو غیرقانونی طریقے سے
ملک سے باہر لے جانا عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ فروغ نسیم نے کہا کہ بیرون ملک سے لوٹے گئے اثاثے واپس لانا اے آر یو کے قیام کی وجہ بنی۔سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ وزیراعظم کو معاون خصوصی لگانے کا اختیار ہے، شہزاد اکبر کو اے آر یو کا سربراہ کیسے لگادیا؟
اس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ وزیر اعظم رولز آف بزنس کے تحت اے آر یو جیسا ادارہ یا آفس بنا سکتے ہیں، اے آر یو کابینہ ڈویژن کے ماتحت ہے، اس کے قیام میں کوئی غیر قانونی کام نہیں ہوا، اس کا کام مختلف ایجنسیوں کے ساتھ کام کرنا ہے۔جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اے آر یو کو قانون کا تحفظ نہیں ہے، اس صورت میں اے آر یو کسی بندے کو چھیڑ نہیں سکتا، ساتھ ہی جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ
اے آر یو انکوائری کے لیے نجی ایجنسی کی خدمات کیسے حاصل کر سکتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے یہ ریمارکس دیے کہ ایف بی آر اور ایف آئی اے قانون کے تحت بنے ادارے ہیں، اے آر یو قانون کے تحت بنا ادارہ نہیں ہے تو پھر کسی معاملے کی انکوائری کیسے کر سکتا ہے۔بینچ کے ایک اور رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے یہ کہا کہ ایف آئی اے کے پاس کرپشن تحقیقات کا اختیار ہے جبکہ اے آر یو کو وزارت داخلہ کے
ماتحت ہونا چاہیے تھا۔اس پر فروغ نسیم نے یہ کہا کہ کیا ایف آئی اے کو ججز کی تحقیقات کا اختیار ہے، جس کے جواب میں جسٹس مقبول باقر بولے کہ کیا پھر اے آر یو کو ججز کی تحقیقات کا اختیار ہے؟اسی بات پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ وزیراعظم ریاستی اداروں کو کرپشن کی تحقیقات کا نہیں کہہ سکتے، وزیر اعظم ایک نجی شخص کو بلا کر ذمہ داری دے دیتے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے یہ کہا کہ یہ تاثر نہ دیا جائے کہ
جج احتساب سے بالاتر ہے، ایف بی آر قانون کے تحت اپنی کارروائی کا مجاز تھا، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ ایک سوال ہو تو میں جواب دوں۔اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اصل میں آپ کی دلیل سے دلچسپی ہوتی ہے۔دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اے آر یو کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کا فیصلہ کرسکتا، پھر یہ کس کے دماغ میں بات آئی کہ یہ کیس جج کے
مس کنڈکٹ کا بنتا ہے، اس پر فروغ نسیم بولے کہ اے آر یو نے جج کے خلاف آرٹیکل 209 کی کارروائی کا نہیں کہا، جس پر ان سے سوال کیا گیا کہ پھر حکومت پاکستان کی جانب سے کس نے کہا کہ یہ معاملہ مس کنڈکٹ کا ہے۔اس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے اس معاملے کے نتائج بھی ہونگے۔سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے میرے خیال سے اس معاملے پر مس کنڈکٹ کا
ریفرنس بنانے کا فیصلہ درست نہیں تھا، صدر مملکت کو اپنی رائے بنانے میں بھی قانون کا حوالہ یا قانون کی سپورٹ ہونی چاہیے، صدر مملکت کو کسی مشورے پر اتفاق کرنے یا نہ کرنے پر وجوہات بتانی ہوتی ہیں۔بینچ کے رکن کے ریمارکس کے بعد سربراہ بینچ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ روشن آئیڈیا کس نے دیا کہ معاملہ نیب اور ایف بی آر کو بھیجنے کے بجائے ریفرنس بنایا جائے، پہلے دن سے آپ احتساب کی
بات کر رہے ہیں جو اچھی بات ہے، آپ کے مطابق کارروائی کے لیے جواز مناسب ہے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اے آر یو کی ایف بی آر اور ایف آئی اے کو خط و کتابت ہورہی ہے، احتساب کی بات کی جارہی ہے۔ جسٹس منصور نے کاہکہ ہم آپ کے حقائق سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، آپ بھی ہمارے سوالوں کو انجوائے کرتے اور ان کی تعریف بھی کرتے ہیں۔دوران سماعت شکایت کنندہ عبدالوحید ڈوگر کا معاملہ بھی
زیرغور آیا جس پر جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ اے آر یو نے وحید ڈوگر کی درخواست پر لندن سے معلومات لینا شروع کر دیں۔جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اے آر یو نے نتیجہ کیسے اخذ کیا کہ منی لانڈرنگ ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ روزہ نہ رکھنا بھی غلط کام ہے تو کیا اس پر بھی اے آر یو کارروائی کا کہہ سکتا ہے؟جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ یہ ذہن میں رکھیں کہ اس اقدام کے نتائج بہت سنجیدہ ہوں گے۔
اس پر بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ اے آر یو کے قوائد کے مطابق ٹیکس کے معاملات ایف بی آر کو جانے تھے، جسٹس منصور نے کہا کہ اے آر یو عام لوگوں کے بارے میں خفیہ معلومات کیسے اکٹھا کر سکتا ہے۔سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کا مقدمہ ٹیکس قانون، غیرملکی زرمبادلہ اور منی لانڈرنگ کے الزامات کا ہے، اے آر یو نے معاملہ کی تحقیقات کی، اے آر یو نے
ایف بی آر اور ایف آئی اے سے مدد لی، اے آر یو اپنے قواعد کے مطابق یہ مقدمہ نیب یا ایف بی آر کو بھیجنے کا مجاز تھا۔انہوں نے کہا کہ 2013 میں لندن فلیٹس کی ٹرانزیکشن ہوئیں، اس وقت کے قانون کے تحت یہ منی لانڈرنگ نہیں تھی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے جج کے مس کنڈکٹ کا تعین کیسے کر لیا؟ اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے جج کے مس کنڈکٹ کی
بات نہیں کی، جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اْس حکومتی شخصیت کا نام بتائیں جس نے تعین کیا کہ جسٹس فائز عیسی مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ لندن کی جائیداد پر متعلقہ حکام نے نوٹس لیکر کارروائی کیوں نہیں کی۔سماعت کے دوران جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اس وقت کی وزیر اطلاعات نے پریس کانفرنس میں ریفرنس پر تبصرہ کیا تھا اور کہا تھا کہ جج صاحب نے کریز سے
باہر نکل کر شاٹ لگائی، لگتا ہے ریفرنس صرف کریز سے باہر نکل کر شاٹ لگانے پر بنا اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ وزیراطلاعات کی اس بات کو زیر بحث نہ لائیں، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی ٹیکس یا منی لانڈرنگ کی نہیں۔حکومتی وکیل کے مطابق جوڈیشل کونسل نے جانچ پڑتال کرنے کے بعد شوکاز نوٹس جاری کیا، صدر مملکت کو جو معلومات ملیں انہوں نے جوڈیشل کونسل کو
بھیج دیں جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ ریفرنس کی تیاری میں بدنیتی ہوئی یا نہیں، کیا آپ تسلیم کرتے ہیں کہ ریفرنس کی تیاری میں نقائص ہیں، اس پر فروغ نسیم نے کہ ریفرنس کی تیاری میں کوئی نقص نہیں۔اس پر پھر جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ بتا دیں کہ معاملہ ٹیکس اتھارٹی کو بھیجنے کے بجائے ریفرنس بنانے کی تجویز کس نے دی، آپ یہ بتا دیں کہ ریفرنس میں
جرم آپ نے کونسا بتایا ہے۔بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 10 ہزار ٹیکس کی عدم ادائیگی پر ریفرنس نہیں بن جاتا، ایسا جرم بتائیں جس سے جج پر اعتماد مجروح ہوا ہو، جو سوالات اٹھائے ہیں ان کے جواب دیں۔بعد ازاں مذکورہ کیس کی سماعت کو پیر تک ملتوی کردیا گیا۔