آج وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کراچی میں چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے خطاب کیا، میں شاہ صاحب کی گفتگو سے اتفاق کرتا ہوں، بے شک مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کو 190دن ہو چکے ہیں‘ وادی میں چھ ماہ سے مارکیٹیں‘ سکول‘ ہسپتال‘ منڈیاں‘ دفتر اور انٹرنیٹ تک بند ہے‘ لوگ ادویات تک نہیں خرید سکتے‘
خوراک کا بحران بھی پیدا ہو چکا ہے اور ہم اگر اس صورت حال کو عالمی انسانی المیہ کہیں تو یہ غلط نہیں ہو گا لیکن انڈیا نے یہ حالات 190دن کے کرفیو کے ذریعے پیدا کیے جب کہ ہماری حکومت نے کرفیو کے بغیر پورے ملک کی اکانومی تباہ کر دی، آپ کارخانوں، صنعتوں، سٹاک ایکس چینج اور منڈیوں کو سائیڈ پر رکھ دیں‘ آپ صرف مہنگائی کو لے لیجیے‘ مہنگائی 15فیصد کو ٹچ کر رہی ہے اور یہ بارہ برسوں کی بلند ترین سطح ہے، اس صورت حال پر وزیراعظم بھی پریشان ہیں اور وفاقی وزراء بھی۔ حکومت کو چاہیے تھا یہ مہنگائی کے ذمہ داروں کو پکڑتی لیکن اس کے بجائے وزیراعظم نے آج 15 ارب روپے کے پیکج کا اعلان کر دیا، یہ رقم مہنگائی کے تناسب سے بہت کم ہے، خوراک چوروں نے صرف گندم کے ذریعے ایک ماہ میں 70 ارب روپے کی دیہاڑی لگائی، حکومت کو چاہیے تھا یہ ان لوگوں کو گرفتار کرتی جب کہ اس نے چھوٹا سا پیکج اناؤنس کر دیا‘ ہم اگر 15 ارب کو بائیس کروڑ لوگوں پر تقسیم کریں تو فی کس 70 روپے بنتے ہیں، 70 روپے میں ایک کلو آٹا‘ ایک کلو چینی اور ایک کلو ٹماٹر بھی نہیں آتے، عوام کو خاک ریلیف ملے گا چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں حکومت نے مہنگائی کے معاملے میں پاکستان کو کرفیو کے بغیر مقبوضہ کشمیر بنا دیا۔کیا 15 ارب روپے کا پیکج کافی ہے، جب کہ کل مہنگائی پر قومی اسمبلی کا سیشن بھی ہو گا‘ عوام کو اس سیشن کا کیا فائدہ ہو گا۔