اسلام آباد (این این آئی) وفاقی حکومت نے خصوصی عدالت کے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر نے اور جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جو ڈیشل کونسل جانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ تفصیلی فیصلہ پڑھنے کیب عد پیرا 66 کولیکر میراسرشرم سے جھک گیا،آپ نے بھی آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے، یہ کس طرح چیز لکھ دی ہے
جس سے دنیا بھر جگ ہنسائی ہوئی ہے ، سپریم کورٹ جسٹس وقار سیٹھ کو کام کر نے سے روک دے،آرٹیکل سکس کا مقدمہ چلنا چاہئے ،فیئر ٹرائل ملنا چاہیے ۔ جمعرات کو معاونین خصوصی فردوش عاشق اعوان اور شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ خصوصی عدالت آرٹیکل 6 کا ٹرائل کر رہی تھی، پہلے مختصر فیصلہ دیا گیا، جو تفصیلی جاری کیا گیا اس میں پیراگراف 66 بہت اہم ہے، یہ پیراگراف بینچ کے سربراہ جسٹس وقار سیٹھ نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا کہ سزائے موت سے قبل اگر پرویز مشرف انتقال کر جاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک لایا جائے اور تین روز تک وہاں لٹکایا جائے۔انہوں نے کہا کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس قسم کی آبزرویشن دینے کی جج کو کیا اتھارٹی تھی، کہیں پر بھی ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے جس میں کسی جج کو ایسی آبزرویشن دینے کا اختیار ہو، ایسے فیصلے کی کوئی نظیر نہیں ملتی، یہ انتہائی غلط آبزرویشن ہے۔انہوںنے کہاکہ 1994 میں سپریم کورٹ کا سنایا گیا ایک فیصلہ ہے جسے نسیم حسن شاہ نے تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ عوامی مقامات پر پھانسی کی سزا آئینی اور اسلام کے خلاف ہے اور کسی بھی جج کو آئین کے تحت اس طرح کا فیصلہ دینے کا اختیار نہیں۔فروغ نسیم نے جسٹس وقار سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل جانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ
وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کے خلاف آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس دائر کیا جائے جس میں استدعا کی جائے گی کہ ایسے جج صاحب کو پاکستان کی کسی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج ہونے کا کوئی اختیار نہیں ہے کیونکہ وہ ان فٹ ہیں، اس قسم کی آبزرویشن دے کر مذکورہ شخص ناصرف عدالت کا استحقاق مجروح کرتا ہے بلکہ یہ انصاف کی فراہمی کے لیے بہت کڑا وقت ہے۔
انہوںنے کہاکہ جج صاحب نے اس طرح کا فیصلہ دے کر خود کو ذہنی طور پر غیر مستحکم ثابت کردیا ہے لہٰذا سپریم کورٹ سے درخواست ہے کہ جسٹس وقار کو فی الفور کام کرنے سے روک دیا جائے جبکہ عدالت عظمیٰ کے سینئر ججز سے درخواست ہے کہ انہیں کسی بھی قسم کا انتظامی اور عدالتی کام نہ دیا جائے۔وزیر قانون نے کہا کہ جسٹس وقار نے غیر روایتی اور غلط آبزرویشن دی ہے
اور اگر آرٹیکل 209 دیکھا جائے تو اس کے ایسی صورت میں دو پیرا ہیں، جس میں نااہلیت اور ذہنی حالت کے بارے میں بات کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ نااہلی کی بات کی جائے تو سپریم جوڈیشل کونسل کے جو قوانین بنے ہیں ان میں جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں یہ بات ڈال گئی تھی کہ نااہلی کے لیے آرٹیکل 209 کو بنیاد بنایا جائے گا۔انہوںنے کہاکہ کوئی بھی جج اگر اس طرح کا
کوئی فیصلہ دیتا ہے تو وہ نہ صرف آئین اور قانون کے خلاف ہے بلکہ یہ عدلیہ کے اعتماد کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ ‘خصوصی عدالت کا فیصلہ پڑھ کر سر شرم سے جھک گیا، فیصلے میں عالمی انسانی حقوق کے اصولوں کی دھجیاں اڑائی گئیں۔انہوں نے کہا کہ فیصلے کے پیرا 66 پر شدید تحفظات ہیں، یہ پیرا پوری دنیا میں شرم کا باعث بن رہا ہے،
وفاقی حکومت اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے جبکہ فیصلے کے خلاف اپیل بھی کرنے جارہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ کیس کے تمام محرکات کو دیکھنے کی ضرورت ہے، کسی بھی مقدمے میں شفاف ٹرائل آئینی تقاضا ہے، پرویز مشرف کے ٹرائل کو عجلت میں نمٹایا گیا اور قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، کیا ایسے اقدامات اٹھانے چاہیئں جس سے قومی اداروں میں ٹکراؤ کا احتمال ہو
فروغ نسیم نے کہاکہ قوم فیصلہ کرے کیا ایسے اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں جن سے تصادم پیدا ہو،جج کئی ذہنی صلاحیت اور اہلیت کے حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کیا جائیگا۔شہزاد اکبر نے کہاکہ آرٹیکل سکس کا مقدمہ چلنا چاہئے لیکن فیئر ٹرائل ملنا چاہیے۔ ایک سوال پر شہزاد اکبر نے کہاکہ عامر لیاقت کے ٹویٹ پر عامر لیاقت سے پوچھیں۔فردوس عاشق اعوان نے کہاکہ وزیرعظم اور آرمی چیف کا اتفاق ہے کہ پالستان کو عدم استحکام سے دوچار نہیں ہونے دینا ،پاکستان نے آگے بڑھنا ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔