پاکستان میں پچھلے 48 سال سے سال کا اختتام انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ ہوتا ہے، 16دسمبر 1971ء کو پاکستان دو حصوں میں تقسیم گیا تھا‘ قوم ہر 16 دسمبر کو اس تقسیم کو یاد کرتی ہے اور کف افسوس ملتی ہے‘ پچھلے پانچ سال سے اس افسوس میں اے پی ایس پشاور کے 149 بے گناہوں کا خون بھی شامل ہو گیا،
ان ایک سو انچاس لوگوں میں 132 بچے تھے، آج چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان دونوں سانحوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا، یہ دونوں پاکستان کی تاریخ کے سیاہ ترین باب ہیں، یہ دونوں واقعات غفلت، غیر سنجیدگی اور حقائق کو تسلیم نہ کرنے جیسی حماقتوں کا نتیجہ ہیں، ہم اگر ان دونوں واقعات سے سنبھل جاتے تو شاید ہم آج جیسے نہ ہوتے لیکن افسوس ہم سوگ منانے کے باوجود سنبھل نہیں سکے، آپ دیکھ لیجیے حمود الرحمن کمیشن رپورٹ سانحہ کے 29 برس بعد منظر عام پر آئی اور یہ بھی پاکستان سے پہلے انڈیا میں چھپی تھی اور ہم نے پانچ سال گزرنے کے باوجود ابھی تک سانحہ اے پی ایس کی رپورٹ بھی جاری نہیں کی، کیا یہ حقیقت یہ ثابت نہیں کرتی ہم آج بھی تاریخ سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں، ہم آخر کب سنبھلیں گے‘ ہم آخر کب سیکھیں گے، سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی ایکسٹینشن سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا، فیصلے کے مطابق پارلیمنٹ اگر چھ ماہ میں قانون سازی نہیں کرتی تو جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائر سمجھے جائیں گے، جنرل باجودہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی وزارت دفاع کی سمریوں کی کوئی حیثیت نہیں، صدر، وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کی جانب سے دوبارہ تعیناتی، توسیع اور نئی تعیناتی بے معنی ہے، آئین وزیراعظم کو ایکسٹینشن کا کوئی اختیار نہیں دیتا، تفصیلی فیصلے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے پاس کیا کیا آپشن ہیں؟