آج کا دن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا‘ دنیا کے کسی بھی معاشرے کے کسی بھی ملک میں تین مقدس ترین پیشے اور ایک مقدس ترین جگہ ہوتی ہے‘ وکیل قانون دان کہلاتے ہیں‘ یہ بے گناہوں کو انصاف دلاتے ہیں‘ ڈاکٹر مسیحا کہلاتے ہیں‘
یہ دکھی انسانیت کی جلتی ہوئی پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہیں اور پولیس بنائی ہی عام شہریوں کے تحفظ کے لیے جاتی ہے اور ہسپتالوں میں درد اور بیماری کا علاج ہوتا ہے‘ یہ جنگوں میں بھی محفوظ رہتے ہیں لیکن آج قانون دانوں کے ہاتھوں دل کے ہسپتال کا جو حشر ہوا ہمیں من حیث القوم آج خود کو قوم‘ خود کو معاشرہ اور خود کو انسان کہلانا بند کر دینا چاہیے‘ ہمیں آج سے خود کو جانور‘ خود کو درندہ ڈکلیئر کر دینا چاہیے بلکہ رکیے جانوروں میں بھی تھوڑی سی حیاء تھوڑا سا احساس ہوتا ہے، یہ دوسرے جانور کو تڑپا کر نہیں مارتے لیکن ہم نے تو آج جانوروں کو بھی شرمندہ کر دیا، ڈاکٹروں نے سفید کوٹ میں وکیلوں کو طیش دلایا، وکیلوں نے کالے کوٹ میں ہسپتال پر حملہ کیا، مشینری تباہ کر دی‘ آئی سی یو اور آپریشن تھیٹر تک روند ڈالا اور پولیس تماشا دیکھتی رہی اور آخر میں فیاض الحسن چوہان نے اس بربریت میں بھی سیاسی مخالفت تلاش کر لی‘ یہ اس ملک میں ہوکیا رہا ہے؟ کیا یہاں سٹیٹ اور رٹ آف دی سٹیٹ دونوں ختم ہو چکی ہیں‘ کیا ہم عدم برداشت کی اس سطح تک پہنچ گئے ہیں جہاں انسان انسانیت کے شرف ہی سے محروم ہو جاتے ہیں‘ آج تین مریض جان سے چلے گئے‘مریضوں کے آکسیجن کے ماسک تک اتار دیے گئے۔ اس صورت حال کا ذمہ دار کون ہے؟ قوم کو اس دلدل سے نکالا کیسے جا سکتا ہے اور وکلاء کو گرفتار کون کرے گا اور سزا کون دے گا؟