ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ،جو معاملہ پاکستان کے حق میں ہوگا ہم اس کیلئے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں مگر۔۔!، پرویز خٹک کی حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ہمراہ پریس کانفرنس،بڑا اعلان کردیا

datetime 19  اکتوبر‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی)وزیر دفاع اور اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کیلئے بنائی گئی حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے واضح کیا  ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ ناممکن سی بات ہے، مطلب ہے مولانا فضل الرحمن چڑھائی کرنا چاہتے ہیں،تمام اپوزیشن جماعتوں سے درخواست کررہے ہیں آکر بات کریں،جب میز پر بیٹھیں گے تو بات ہوگی، اگر اپنے مطالبات سامنے نہیں لائیں گے تو پھر افراتفری ہوگی اور ملک کو نقصان پہنچے گااس کی تمام ذمہ داری اپوزیشن پر ہوگی،

مذاکرات نہیں کرینگے تو حکومت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں، پھر سب کو برداشت کرنا پڑے گا،جو معاملہ پاکستان کے حق میں ہوگا ہم اس کیلئے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں،کوئی سمجھتا ہے ہم نے گھبرا کر کمیٹی بنائی تو وہ غلط فہمی میں نہ رہے،اپوزیشن سے رابطے کیے ہیں، ہمیں مثبت رسپانس ملا ہے،اب حکومت کی جانب سے کوئی بیان بازی نہیں ہو گی۔ ہفتہ کو یہاں حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ارکان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے  وزیردفاع پرویز خٹک نے کہا کہ جب ہم نے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا تھا تو ہمارے پاس ایک موقف تھا ایسے ہی ہم نے مارچ نہیں کردیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت صرف زبانی بات نہیں کررہے تھے بلکہ پاناما کا معاملہ اس وقت سامنے آیا تھاجس پر ہم نے سب سے درخواست کی کہ اس پر تحقیقات کی جائے لیکن کسی نے ہماری بات نہیں سنی، تاہم جب پاناما کا معاملہ ہوا تو بھی ہم چھپے نہیں ہم نے حکومتی لوگوں سے بات کی۔حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ نے کہا کہ ہم تمام اپوزیشن جماعتوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ آکر بات کریں کیونکہ اگر آپ کے پاس کوئی مسئلہ، کوئی مطالبہ ہے تو بات کریں، ملک میں جمہوریت ہے جب میز پر بیٹھیں گے تو بات ہوگی تاہم اگر اپنے مطالبات سامنے نہیں لائیں گے تو پھر افراتفری ہوگی۔پرویز خٹک نے کہا کہ ہماری جانب سے بار بار بات کرنے کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی مسئلہ ہے تو اسے بات چیت سے حل کریں، تاہم اگر آپ بیٹھ کر بات نہیں کریں گے تو پھر جو افراتفری پھیلے گی،

ملک کو نقصان پہنچے گا تو پھر ذمہ داری اْن پر ہے، پھر ہم سے کوئی گلا نہ کرے کیونکہ اس کے بعد حکومت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں اور پھر سب کو برداشت کرنا پڑے گا۔انہوں نے کہاکہ اگر کوئی بات ہی نہیں کرتا تو اس کا مطلب ایجنڈا کچھ اور ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت یہ دیکھا جائے کہ ملک کے حالات کیسے ہیں، کشمیر کا معاملہ سب کے سامنے ہے لیکن اس وجہ سے کشمیر کا معاملہ پیچھے چلا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ لگتا ہے کشمیر کے معاملے کو دبانے کے لیے یہ ایجنڈا بنایا گیا ہے،

ہم نے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماؤں سے بات کی اور انہیں اپنا پیغام پہنچایا کہ آکر بات کریں اور مجھے امید ہے کہ جو بھی معاملہ ہوگا بیٹھ کر بات کی جائے گی۔حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ نے کہا کہ جو معاملہ پاکستان کے حق میں ہوگا ہم اس کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں لیکن جو یہ سمجھتا ہے کہ ہم نے گھبرا کر کمیٹی بنائی تو وہ غلط فہمی میں نہ رہے یہ جمہوریت کی روایت ہے کہ میز پر ہی بات ہوتی ہے اور ہم جمہوری لوگ ہیں۔

وزیر دفاع ن کہا کہ ہمیں پاکستان کی فکر ہے، اگر کسی کی زندگی کو نقصان پہنچا، کاروبار خراب ہوا تو اس کا ازالہ کون کرے گا؟، ہم نے اپنے تمام کارڈز کھول دئیے ہیں، اگر کل کو کچھ ہوا تو پھر کہا جائے گا کہ حکومت یہ کر رہی لیکن حکومت نے وہی کرنا ہے جو قانون کے مطابق ہوگا، حکومت نے وہی فیصلے کرنے ہیں جس سے ڈیڈلاک نہ آئے اور کسی کی جان و مال کو نقصان نہ پہنچے، اگر یہ لوگ نہیں رکیں گے تو پھر حکومت اپنی رٹ قائم کرے گی۔انہوں نے کہا کہ حکومت صرف عمران خان نہیں بلکہ ایک ریاست ہے

اور اگر کوئی اس نظام کو توڑنا چاہتا ہے تو پھر جواب ملے گا،۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھارتی ٹی وی چینلز دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کے ایجنڈے پر کام ہورہا ہے اور پاکستان میں افراتفری پھیل گئی ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ مولانا کے مارچ کی خبروں کے بعد کشمیر کا ایجنڈا میڈیا سے ہٹ گیا ہے،اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کس کا ایجنڈا ہو سکتا ہے؟اگر مولانا صاحب کا کوئی ایشو ہے تو ہم سے بات کریں،انکی ہر بات سنیں گے،اگر وہ بات نہیں کرتے تو اسکا واضح مطلب ہو گا کہ انکا ایجنڈا کچھ اور ہے۔ انہوں نے کہاکہ سب پاکستانی ہیں، مجھے یقین ہے مولانا کسی کے ایجنڈے پر نہیں چلیں گے۔ وزیراعظم کے بیان پر پرویز خٹک نے کہاکہ کسی نے کسی کو گالی نہیں دی، اپوزیشن خود اپنی باتوں پر توجہ دے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہاکہ چیئرمین سینٹ اس کمیٹی کا حصہ ہیں،

پہلے ہماری کوشش تھی کہ چیئرمین بلوچستان شامل ہوں،اگر چیئرمین بلوچستان شامل ہوے تو سنجرانی صاحب شامل نہیں ہوں گے،اسپیکر قومی اسمبلی پرویز الٰہی کمیٹی کا حصہ ہیں۔ شفقت محمود نے کہاکہ میں تنبیہ کرتا ہوں کہ مولانا مدارس کے بچوں کو مارچ یا دھرنے کے لیے استعمال نہ کریں۔ پرویز خٹک نے کہاکہ اپوزیشن سے رابطے کیے ہیں، ہمیں مثبت رسپانس ملا ہے۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ ہماری کمیٹی صرف مذاکرات کے لیے ہے، اگر مذاکرات ناکام ہوے تو حکومت اور وزارت داخلہ فیصلہ کریں گے کہ کیسے نمٹنا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ ہم اپوزیشن کے پاس چل کر جانے کے لیے بھی تیار ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ملک کی سرحدوں پر حالات بہت خراب ہیں،اگر اپوزیشن مذاکرات کے لیے نہ مانی تو اسکا مطلب ہو گا کہ وہ مودی اور بھارت کو خوش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ریاست مسلح جتھوں کی اجازت کسی حال میں بھی نہیں دے سکتی۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ اب حکومت کی جانب سے کوئی بیان بازی نہیں ہو گی،اگر اپوزیشن کو پاکستان اور کشمیریوں سے محبت ہے توبات چیت کریں گے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…