اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)جاوید چوہدری اپنے کالم ’’چین نہیں صومالیہ سے سیکھیں‘‘میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔آپ اگر پاکستان میں کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو آپ 22 اداروں کے سامنے جواب دہ ہوں گے‘ آپ کو کسی بھی وقت کسی بھی ادارے کا نوٹس آ جائے گا‘
آپ کو کوئی بھی کسی بھی وقت طلب کر لے گا یا پھر آپ کے دفتر آپ کی فیکٹری میں کسی بھی وقت چھاپہ پڑ جائے گا اور آپ ان چھاپوں اور نوٹسز سے بچنے کے لیے رشوت دینے پر مجبور ہو جائیں گے‘ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں ملک ریاض نے ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا تھا ہاں میں فائلوں کو پہیے لگاتا ہوں۔جس میں ایک ریٹائرڈ میجر نے ان کے دفتر سے چیف جسٹس آف پاکستان کا نام لے کر پانچ کروڑ روپے وصول کیے اور وصولی کی فوٹیج تمام چینلز پر چلی ‘ جس میں ملک ریاض نے سر پر قرآن مجید رکھ کر چیف جسٹس آف پاکستان پر کرپشن کا الزام لگایا‘ جس میں شیڈولڈ بینکوں کے جعلی اکاؤنٹس نکل آئے اور جس میں حکومتیں غیر سرکاری بینکوں کے قرضے معاف کردیتی ہیں‘ حکومت میں آج بھی نصف درجن سے زائد ایسے لوگ موجود ہیں جن پر نیب نے مقدمات بنا رکھے ہیں یا جن کی فائلیں کھلی ہوئی ہیں‘ یہ کیوں ہے؟۔یہ اس لیے ہے کہ ہم کرپشن کرپشن کا شور بہت کرتے ہیں لیکن ہم نے آج تک کرپشن روکنے کا کوئی بندوبست نہیں کیا‘ ہم نے محکموں کی تعداد کم کی اور نہ اپنے سسٹم کو آسان بنایا‘ آپ آج کاروبار کے لیے ون ونڈو آپریشن کر دیں‘سسٹم کو آن لائین کر دیں اور محکموں کا عمل دخل ختم کر دیں‘ ملک سے کرپشن ختم ہو جائے گی لیکن جس ملک میں لنگر خانے کا افتتاح بھی وزیراعظم کر رہا ہو وہاں سسٹم کیسے بنیں گے۔میں نے دو دن قبل وزیراعظم کو چین میں فرماتے ہوئے سنا ”کاش میں پانچ سو کرپٹ لوگوں کو جیل میں بند کر سکتا“ اور ”ہم کرپشن ختم کرنے کے لیے چین سے سیکھنا چاہتے ہیں“ یہ سن کر میری ہنسی نکل گئی۔