ا سلام آباد (این این آئی)وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر عالمی برادری کو خبردار کیا ہے کہ بھارت کے اقدامات کی وجہ سے پاکستان اور بھارت جنگ کے دہانے پر ہیں، اگر دو ایٹمی طاقتیں لڑیں گی تو انجام بھیانک ہوگا،کشمیر اقوام متحدہ میں تسلیم شدہ ایک متنازع علاقہ ہے، اقوام متحدہ کی اس حوالے سے متعدد قراردادیں موجود ہیں، عالمی برادری کردارادا کرے،ہمیں بھارت سے لاتعداد شکایتیں ہیں،
یہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں دہشت گرد کارروائی کرتا،پاکستان پر افغانستان میں امریکا کی ناکامی کا الزام ناانصافی ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کو دئیے گئے اپنے انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھا دیا ہے،پاکستان ایسی قوم ہے جو اپنی بقا کیلئے آخری دم تک لڑے گی۔انہوں نے کہاکہ دو ایٹمی طاقتیں جنگ کے دہانے پر ہیں اگر یہ طاقتیں لڑیں گی تو انجام بھیانک ہوگا، تاہم ایٹمی جنگ سے بچنے کے لیے عالمی برادری اپنا کردار ادا کرے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کوئی بھی ذی شعور انسان ایٹمی جنگ کی بات نہیں کرسکتا۔انہوں نے پاک بھارت کشیدگی کو امریکا اور روس کے درمیان 1962 کے کیوبن میزائل بحران سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان صورتحال بہت کشیدہ ہے، اور اگر ان دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہوئی تو اس کے اثرات برصغیر کے باہر بھی محسوس کیے جاسکیں گے۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ بھارت کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ کہتا ہے تو اس پر عالمی برادری کس طرح بات کریگی جس کا جواب دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کشمیر اقوام متحدہ میں تسلیم شدہ ایک متنازع علاقہ ہے، اور اقوام متحدہ کی اس حوالے سے متعدد قراردادیں موجود ہیں انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ یہاں صرف بیانات دینے کے بجائے اسے حل کرنے کا عملی مظاہرہ کرے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں اس معاملے کو اقوام متحدہ میں اٹھاؤں گا اور وہاں جاکر یہ کہوں گا کہ یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ اس معاملے کو حل کروائے۔
وزیراعظم نے کہا کہ بھارت میں اس وقت آر ایس ایس نظریے کی حکومت ہے جو نازی جرمنی کے نظریے سے متاثر ہے۔انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کے کیمپ میں ایسے دہشت گرد تیار ہورہے ہیں جو اپنے تشدد سے مسلمانوں کو خوفزدہ کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف کشمیروں بلکہ بھارت اور پوری دنیا میں رہنے والے مسلمانوں کی طرف سے اس کا رد عمل آئیگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ری ایکشن اس لیے آئیگا کیونکہ مسلمان پہلے ہی روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم دیکھ چکے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہ اب عمل کا وقت ہے، کیونکہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ عمل نہ کرنا کوئی آپشن نہیں ہے۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی کس طرح مدد کر رہا تو جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان اس وقت کچھ نہیں کر سکتا، بھارت نے تمام سرحدیں بند کی ہوئی ہیں، پاکستان عالمی برادری کو معاملے آگاہ کر رہا ہے اور اسے ہر فورم پر اٹھارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اب یہ معاملہ دوطرفہ بات چیت سے حل نہیں ہوسکتا، بات اس سے آگے نکل چکی ہے، اس کے حل کا راستہ صرف امریکا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ساتھ روسی صدر ویلادی میر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ وہ بڑی شخصیات ہیں جو مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ حل کروانے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔مسئلہ کشمیر کا حل بتاتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ اقوام متحدہ کا کشمیری عوام کے ساتھ کیا جانے والا وعدہ ہے، جو انہوں نے کشمیری عوام کے حق خودارادیت سے متعلق کیا ہے۔مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے متعلق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ نریندر مودی نے بہت بڑی غلطی کردی کیونکہ یہاں سے آگے جانے اور پیچھے جانے میں مودی کا بہت بڑا نقصان ہے۔
انہوں نے کہا کہ رواں برس فروری میں جب پلوامہ حملہ ہوا تو اس کے بعد بھارت نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی جبکہ پاکستان انہیں مسلسلہ کہتا رہا کہ اگر آپ کے پاس کسی پاکستانی کے ملوث ہونے کا ثبوت ہے تو ہمیں دیں ہم کارروائی کریں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ بھارت نے ایک مرتبہ پھر دراندازی کی کوشش کی تو بھارتی طیارے کو مار گرایا اور جب پاکستان نے اس گرفتار بھارتی پائلٹ کو خیر سگالی کے جذبے کے تحت واپس کیا تو انہوں نے اسے اپنی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ پاکستان ان سے ڈر گیا۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ بھارت یہ الزام عائد کرتا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں صورتحال خراب کرنے کا ذمہ دار ہے تو وزیراعظم نے جواب دیا کہ
پاکستان ایسی کسی کارروائی میں ملوث نہیں ہے، ہم نے نریندر مودی کو یہ پیشکش کی کہ وہ اپنی انٹیلی جنس اور کسی بھی مبصر کے ذریعے اس کا پتہ لگالیں۔اپنی بات کی وضاحت دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 1980 کی دہائی میں پاکستان، سویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکا اور افغانستان کا سب سے بڑا اتحادی تھا۔انہوں نے کہا کہ اس عرصے میں یہاں مجاہدین کو تربیت دی گئی، اور جب سویت یونین یہاں سے چلا گیا تو ان لوگوں کو پاکستان کے ساتھ چھوڑ دیا گیا، تاہم اب تحریک انصاف کی حکومت وہ پہلی حکومت ہے جس نے عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے اقدامات اٹھائے۔وزیراعظم نے کہاکہ ہمیں بھارت سے لاتعداد شکایتیں ہیں، یہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں دہشت گرد کارروائی کرتا ہے،
ہم نے سب سے پہلے بیٹھ کر دہشت گردی پر بات کرنے کا کہا ہے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کا نائن الیون کے واقعہ سے کوئی تعلق نہیں تھا، پاکستان دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں شامل ہوا اور جب امریکا وہاں کامیاب نہ ہوسکا تو اس کا الزام بھی پاکستان پر عائد کیا جارہا ہے جو سراسر ناانصافی ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ افغانستان کی فطرت کو سمجھ نہیں سکی، افغان کسی بھی غیر ملکی کو برداشت نہیں کرتے، سویت نے وہاں 9 سال جنگ لڑی لیکن 50 ہزار فوجی مارے جانے کے باوجود وہ اسے ’فتح‘ نہ کرسکے۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی حمایت کرتا ہے تو اس کے جواب میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ یہ انخلا ایک منصوبہ بندی کے ساتھ اور معاہدے کے تحت ہونا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ 4 دہائیوں
سے افغانستان کے لوگ خون خرابہ دیکھ رہے ہیں، وہ اب امن چاہتے ہیں اور ہم سب دعا گو ہیں کہ طالبان اور امریکا کے درمیان امن عمل دوبارہ بحال ہوجائے۔جب وزیراعظم سے امریکا کے سابق سیکریٹری دفاع جیمز میٹس کے پاکستان کو سب سے خطرناک ملک قرار دینے سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر پاکستان امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل نہ ہوتا تو وہ آج دنیا کا خطرناک ملک نہ ہوتا۔انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں ایک مرتبہ پھر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں پاکستان کے امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کے خلاف تھا۔انہوں نے کہاکہ جب پاکستان اس جنگ میں شامل ہوگیا تو سویت یونین کے خلاف جنگ میں حصے لینے والے پاکستان کے خلاف ہوگئے۔روس اور پاکستان کے تعلقات سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ دنیا اب تبدیل ہوچکی ہے، اس کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔