لاہور(آن لائن) لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب یوتھ فیسٹیول کیس میں قومی احتساب بیورو(نیب) کو رانا مشہود کے خلاف آئندہ سماعت تک کسی بھی تادیبی کارروائی سے روک دیا ہے۔عدالت نے رانامشہود کا نام بلیک لسٹ میں شامل کرنے کیخلاف درخواست پر وزارت داخلہ سے 24 جولائی کو جواب بھی طلب کر لیاہے۔
مسلم لیگ ن کے ایم پی اے رانا مشہود کی نیب طلبی کے نوٹسز کے خلاف درخواست پر سماعت جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کی ۔رانا مشہود کے وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب یوتھ فیسٹول کی انکوائری ہوئی تھی۔عدالت نے رانا مشہود کے وکیل سے پوچھا کیا اس کیس میں عثمان انور گرفتار ہو ئے ہیں؟رانا مشہود کے وکیل قاضی مصباح نے جواب دیا ڈائریکٹر جنرل سپورٹس بورڈ عثمان انور کو پیپرا رولز کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا۔وکیل رانا مشہود نے کہا کہ انکے موکل کے خلاف پنجاب یوتھ فیسٹیول میں کرپشن کے الزام میں نیب انکوائری بند کر چکا ہے۔جسٹس علی باقر نے کہا کہ نیب اس معاملے پر بتائے کبھی آپ انکوائری کھول دیتے ہیں، کبھی بند کر دینگے اور پھر کھول دیں گے؟نیب پراسیکیوٹر نے کہا اگر کوئی چیز صفحہ مثل پر آتی ہے تو انکوائری دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔رانا مشہود نے عدالت میں کہا کہ انکا میڈیا ٹرائل کیاجارہا ہے ،دستاویزات فراہم نہیں کیے جارہے۔ انکوائری بند ہونے کے بعد دوبارہ شروع نہیں کی جاسکتی۔عدالت نے درخواست پر نیب حکام اور وزارت داخلہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 24 جولائی کو جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے نیب وکیل کو ہدایات لے کر پیش ہونے کا بھی حکم دیا۔
رانا مشہود احمد نے لاہور ہائیکورٹ میں آئینی درخواست کے ذریعے نیب کے اقدامات کو چیلنج کیا۔درخواست گزار نے کہا ہے کہ نیب نے 2017 میں انکوائری بند کرنے کا لیٹر جاری کیا۔اب گزشتہ کچھ ماہ سے نیب نے دوبارہ انکوائری کول کر کردار کشی کی مہم شروع کروا رکھی ہے۔رانا مشہود کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیاہے کہ صرف انکوائری کی بنیاد پر درخواست گزار کا نام بلیک لسٹ میں ڈلوایا گیا ہے،نیب میں کئی برسوں سے جاری انکوائری میں مسلسل پیش ہوتا رہا ہوں۔
رانا مشہود نے کہا کہ نیب نے دوبارہ انکوائری شروع کروا کر طلبی کے نوٹسز بھجوا دیئے ہیں،متعدد لیٹرز لکھنے کے باوجود درخواست گزار کو نیب انکوائری کی کاپی اور ریکارڈ نہیں دیا جا رہا۔ عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ درخواستگزار کی کردار کشی روکنے اورانکوائری کا ریکارڈ جمع کرانے کا حکم دے۔ لاہور ہائیکورٹ صرف انکوائری کی بنیاد پر بلیک لسٹ میں سے نام نکالنے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ طلبی کے نوٹسز کو بھی کالعدم قرار دے۔