اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف صحافی و کالم نگار جاوید چودھری اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ محمد فیاض عارف والا کے گاؤں 32 ایس پی تابر میں پیدا ہوا‘ والدین انتہائی غریب تھے‘ میٹرک میں تھا‘ والد فوت ہو گیا‘یہ انڈر میٹرک رہ گیا‘یہ پیٹ پالنے کے لیے دن کو پاپ کارن بیچنے لگا اور رات کے وقت چوکیداری کرنے لگا‘ یہ درمیانی وقفوں میں نیند کے ہچکولے بھی لے لیتا تھا‘ ہم میں سے ہر انسان کچھ نہ کچھ بننا چاہتا ہے۔
آپ سڑک پر چلتے کسی شخص کو روک کر پوچھ لیجیے وہ آپ کو پوری تفصیل کے ساتھ اپنی زندگی کے عزائم بتائے گالیکن ہم میں صرف آدھ فیصد لوگ اپنے عزائم میں کامیاب ہوتے ہیں جب کہ باقی ننانوے اعشاریہ پانچ فیصد صدر بنتے بنتے ٹرک ڈرائیور بن جاتے ہیں یا اسٹیل مل لگاتے لگاتے کباڑیئے ہو جاتے ہیں‘ محمد فیاض بھی ہم ننانوے اعشاریہ پانچ فیصد لوگوں میں شامل تھا‘ یہ پائلٹ بننا چاہتا تھا لیکن زندگی اسے پاپ کارن اور چوکیداری کی طرف لے گئی۔ یہ جھاڑ پھونکنے پر مجبور ہو گیا مگر یہ ہم جیسا ہونے کے باوجود ہم جیسا نہیں تھا‘ یہ دنیا کے ان آدھ فیصد لوگوں میں شامل تھا جو اپنی آئی پر آ جائیں تو یہ کر کے رہتے ہیں چنانچہ اس نے ہر صورت پائلٹ بننے کا فیصلہ کر لیا‘ اب سوال یہ تھا محمد فیاض میٹرک فیل تھا‘ دیہاتی تھا‘ پاپ کارن بیچتا تھا‘ چوکیداری کرتا تھا اور چار بچوں کا غریب باپ تھا‘ یہ جس دن پاپ کارن نہیں بیچ پاتا تھا یہ اس دن بچوں کو بھوکا سلانے پر مجبور ہو جاتا تھا جب کہ پائلٹ بننے کے لیے تعلیم‘ پیسہ اوراسٹیٹس چاہیے تھا اور محمد فیاض کے پاس ان تینوں میں سے کوئی چیز موجود نہیں تھی لیکن پھر محمد فیاض نے ایک عجیب فیصلہ کیا‘ اس نے اپنا جہاز بنانے کا فیصلہ کر لیا۔آپ یہ فیصلہ دیکھئے اور پھر محمد فیاض کو دیکھئے‘یہ انجینئر تھا‘ ایئروناٹیکل سائنس کاماہر تھا اور نہ ہی جہاز اڑانے کا فن جانتا تھا‘ یہ غربت کی اس انتہائی پست سطح پر رینگ رہا تھا جہاں دو وقت کی روٹی بھی جوئے شیر کے برابر ہوتی ہے لیکن آپ اس شخص کا عزم اور حوصلہ دیکھئے‘
محمد فیاض نے جہاز بنانے کے لیے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کیے۔اپنی چار کنال زمین بیچی‘ دوست احباب سے قرض لیا اور یہ فیصل آباد چلا گیا‘کباڑ مارکیٹ سے پرانا بڑا انجن‘ جنریٹر اور بارہ وولٹ کی بڑی بیٹری‘ جہازوں کے شکستہ پرزے‘ پرانی گاڑی کی پرانی سیٹ اور پٹرول کے دو کین خریدے اور یہ سامان اپنے گھر میں ڈھیر کر دیا‘ محمد فیاض اب دن کو پاپ کارن بیچتا تھا‘ رات کو چوکیداری کرتا تھا اور درمیان میں جو وقت بچ جاتا تھا یہ اس میں جہاز بناتا تھا‘ یہ چھ ماہ تک اس کام میں جتا رہا یہاں تک کہ اس نے ایک سیٹ کا چھوٹا سا جہاز بنا لیا‘
یہ جہاز کو کھیتوں میں لے گیا‘ پٹرول کے دو کین پائلٹ کی سیٹ کے پیچھے باندھے اور جہاز اسٹارٹ کر لیا‘ جہاز نہ صرف اسٹارٹ ہو گیا بلکہ یہ اڑنا بھی شروع ہو گیا‘ یہ بہت بڑی کامیابی تھی تاہم جہاز میں ایک دو چھوٹے چھوٹے نقص تھے۔محمد فیاض نے یہ نقص دور کیے‘ اسے یہ نقص دورکرنے میں مزید چھ ماہ لگ گئے‘ اس نے 31 مارچ 2019ء کوعارف والا کے گاؤں50 ای بی میں جہاز اڑانے کا اعلان کر دیا‘ لوگ اس اعلان کومذاق سمجھنے لگے لیکن محمد فیاض کے پریقین لہجے نے انھیں تماشہ دیکھنے پر مجبور کر دیا‘ محمد فیاض نے اپنا جہاز اسٹارٹ کیا‘
چھ سو لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کیں‘جہاز اڑنے کے لیے تیار ہوا لیکن پھر اچانک پولیس پہنچ گئی۔ فیاض کا جہاز بنانا اور جہاز اڑانا بہت بڑا جرم تھا چنانچہ تھانہ رنگ شاہ کی پولیس نے محمد فیاض اور اس کے جہاز کو انجن‘ جنریٹر‘ بیٹری‘ پٹرول کے دو کین اور سیٹ سمیت حراست میں لے لیا‘ پولیس جہاز کو ٹریکٹر ٹرالی میں لاد کر تھانے لے گئی‘ مجرم کے خلاف 285‘ 286 اور 287 کا پرچہ درج کر دیا گیا‘ اے ایس آئی محمد اشرف مجرم محمد فیاض کے خلاف مدعی تھا‘ مجھے کل مدعی محمد اشرف کا ایک ویڈیو بیان دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ محمد اشرف اے ایس آئی ویڈیو میں کہہ رہا تھا
’’اس نے بہت بڑی غلطی کی‘ یہ گناہ گار ہے‘‘۔ میں اے ایس آئی محمد اشرف سے اتفاق کرتا ہوں‘ محمد فیاض واقعی گناہ گار ہے اور اس نے حقیقتاً بہت بڑی غلطی کر دی‘ یہ اپنی اوقات دیکھے اور پھر جرم دیکھے‘ ذات کا چوکیدار اور جہاز بنانے کا جرم اور یہ جرم بھی اگر بنانے تک محدود رہتا تو شاید محمدفیاض سزا سے بچ جاتا لیکن پاپ کارن بیچنے والے اس انڈر میٹرک شخص نے جہاز اڑا بھی لیا‘ ہوا میں کرتب بھی دکھا دیے اور جہاز کو چھوٹی سی سڑک پر اتار بھی لیا‘ یہ ہم جیسے ملکوں اور معاشروں میں ناقابل معافی جرم ہے لہٰذا میری حکومت سے درخواست ہے آپ جہاز بنانے والے محمد فیاض کو فوری طور پر پھانسی دے دیں
اور جہاز کو ٹریکٹر ٹرالی میں لاد کر تھانے لانے والے اے ایس آئی محمد اشرف کو پرائڈ آف پرفارمنس سے نواز دیں کیونکہ ہم جیسے آئیڈیل معاشروں میں جہاز بنانے والے مجرم ہوتے ہیں اور جہازوں کو ٹرالیوں میں لاد کر لانے والے اے ایس آئی جینئس چنانچہ ہمیں اپنے محمد اشرف اے ایس آئی جیسے جینئسز کی قدر کرنی چاہیے۔ حکومت غور کرے اے ایس آئی محمد اشرف نے کس طرح اپنی جان خطرے میں ڈال کر محمد فیاض کو گرفتار کیا ہو گا اور اسے جہاز کو ٹرالی میں لاد کر تھانے لانے کے لیے بھی کتنی مہارت اور کتنی عقل کی ضرورت پڑی ہو گی اور یہ بے چارہ عقل اور مہارت کے اس بے دریغ استعمال کے بعد کتنا تھک گیا ہو گا
لہٰذا یہ انعام اور ایوارڈ دونوں کا حق دار ہے اور حکومت کو پسینہ خشک ہونے سے پہلے اسے اس کا حق ضرور دینا چاہیے۔ ہمارے جیسے معاشروں میں محمد فیاض مجرم ہوتے ہیں اور یہ ہمیشہ مجرم رہیں گے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ غربت‘ کم تعلیم اور سماجی پستی کے باوجود خواب بھی دیکھتے ہیں اور خوابوں کی تعبیر کی کوشش بھی کرتے ہیں‘ یہ اسد عمر کے ملک میں پرفارم بھی کرتے ہیں اور یہ وسائل کی کمی کے باوجود وہ بھی کر گزرتے ہیں جو وسائل سے بھرپور ملکوں اور معاشروں میں بھی ممکن نہیں ہوتا چنانچہ یہ مجرم‘ یہ گناہ گار ہوتے ہیں اور ہمیں ان گناہ گاروں‘ ان مجرموں کو عبرت کی نشانی بنانا چاہیے‘ ہمیں انھیں قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔
ہم دنیا کے دلچسپ ترین لوگ ہیں‘ ہم من حیث القوم کام‘ کامیابی اور ترقی کے دشمن ہیں‘ ہم میں سے جو شخص کام کرنے کی غلطی کرتا ہے ہم اسے عبرت کی نشانی بنا دیتے ہیں‘ ہم میں سے جو کامیاب ہو جاتا ہے ہم اسے سولی پر لٹکا دیتے ہیں اور ہم میں سے جو شخص خود ترقی کی سیڑھی پر قدم رکھ دیتا ہے یا وہ ہم میں سے کسی شخص کو ترقی کی شاہراہ پر لے آتا ہے‘ ہم اسے سڑکوں پر گھسیٹنا شروع کر دیتے ہیں‘ ہم اسے بھی بدترین مثال بنا دیتے ہیں‘ ہماری یہ رسم ہمیں اب وہاں لے آئی ہے جہاں کھائی کے علاوہ کچھ نہیں بچا‘ ہمیں اب یہ سلسلہ روکنا ہوگا‘ ہمیں اب اِدھر یا اُدھر دونوں میں سے کسی ایک کا فیصلہ کر لینا چاہیے‘ ہم اسلامی نظام چاہتے ہیں‘
ہم ملک میں ایک ہی بار مکمل اسلامی نظام نافذ کر دیں۔کاٹ دیں سب چوروں کے ہاتھ اور اتار دیں گناہ گاروں کے تمام سر‘ کر دیں لازم داڑھی اور برقعہ اور نکال دیں تمام غیر مسلموں کو ملک سے‘کم از کم روز روز کے مطالبے تو ختم ہوں‘ ہم اگر فوجی رُول چاہتے ہیں تو لگا دیں پچاس سال کے لیے مارشل لاء‘ پوری قوم کے لیے ٹریننگ بھی لازم کر دیں‘ جو نہ کرے اسے سمندر میں پھینک دیں‘ ہم لڑنا چاہتے ہیں تو پھرکر دیں اعلان جنگ‘ ہم سمندروں‘ دریاؤں‘ پہاڑوں اور میدانوں میں لڑیں اور اس وقت تک لڑتے رہیں جب تک ہم یا ہمارے دشمن دونوں میں سے کوئی ایک زندہ ہے‘ ہم جوڈیشل ایکٹوازم چاہتے ہیں تو پھر ہم ایک ہی بار ملک کا سارا اختیار سپریم کورٹ کے حوالے کر دیں‘
یہ ڈیم بھی بنوائے‘ ادویات کی قیمتیں بھی طے کرے‘ پاگل خانوں کا سسٹم بھی ٹھیک کر لے اور یہ اسٹیل مل چلانے کا طریقہ بھی دریافت کر لے‘ ہم اگر جمہوریت چاہتے ہیں تو پھر ہم ایک ہی بار جمہوریت کا فیصلہ کر لیں‘ حکومتیں روز آئیں اور حکومتیں روز جائیں لیکن ہم جاپان اور ہالینڈ کی طرح قدم قدم آگے بڑھتے رہیں۔ فوج یا عدلیہ کسی قسم کی مداخلت نہ کرے‘ ہم اگر ہمسایوں کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنا چاہتے ہیں تو پھر افغانستان‘ ایران‘ چین اور بھارت کے ساتھ ایک بار مذاکرات کریں اور سارے مسائل نبٹا دیں‘ وہ جو مانگتے ہیں دے دیں اور آگے بڑھیں‘ ہم اگر قرضے نہیں لینا چاہتے تو اعلان کر دیں ہم بھوکے مر جائیں گے لیکن کشکول نہیں پھیلائیں گے‘ ہمیں اگر جدید تعلیم نہیں چاہیے‘
ہم اگر عورتوں کو گھروں میں دیکھنا چاہتے ہیں‘ ہم اگر بچوں کو پولیو کی ویکسین نہیں پلانا چاہتے‘ ہم اگر غیر سرکاری لشکر بنانا چاہتے ہیں‘ ہمیں اگر سڑکیں‘ پل‘ انڈر پاسز‘ میٹروز‘ اورنج لائن ٹرینیں‘ ایل این جی‘ بجلی اور پانی نہیں چاہیے۔ہم اگر ملک میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کو نہیں دیکھنا چاہتے اور ہمیں اگر ترقی نہیں چاہیے تو ہم ایک ہی بار یہ فیصلہ بھی کر لیں اور ہم اگر احتساب کے نام پر پورا ملک بند کرنا چاہتے ہیں تو ہم ایک ہی بار سارے انتظامی اختیارات نیب کو دے دیں تاکہ یہ روز روز کی بک بک ختم ہو جائے‘ جان چھوٹ جائے اور ہم مینڈک بن کر اپنے اپنے کنوئیں میں خوشی خوشی زندگی گزارنا شروع کر دیں‘ یہ دو قدم آگے اور چار قدم پیچھے کا مسئلہ تو ختم ہو‘ روز جینا اور روز مرنا تو بند ہو‘ ہم سب اسد عمر ہو جائیں یا پھر محمد فیاض اور محمد اشرف ہو جائیں‘ ہم کچھ تو ہوں‘ یہ آدھے تیتر اور آدھے بٹیر کا کھیل تو بند ہو‘ ہم آخر کب تک محمد فیاض جیسے لوگوں کو جوتے مارتے اور پوری قوم اسد عمر جیسے پائلٹوں کے حوالے کرتے رہیں گے‘ ذلت کا یہ سلسلہ کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں تو ختم ہونا چاہیے‘ ہمیں اب کہیں نہ کہیں تو ٹھہر جانا چاہیے‘ ہم آخر کب تک ریت میں مچھلیاں تلاش کرتے رہیں گے۔