اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک ، این این آئی)ملائیشین وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے کہا ہے کہ ملائیشیاء پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ بڑھتی ہوئی کشیدگی میں کسی ایک فریق کا ساتھ نہیں دیگا کیونکہ ملائیشیاء جنگیں نہیں چاہتا۔ میرے خیال میں دہشت گردوں کو بالادستی حاصل کرنے کی اجازت دینا بہت خطرناک ہے‘ ہمیں دہشت گردوں کو روکنا چاہئے لیکن دونوں ممالک کو دہشت گردی کی کارروائیوں کا سدباب کرنا ہو گا۔
جب دہشت گرد لڑتے ہیں وہ محض انتقام لینا چاہتے ہیں۔ وہ فاتح نہیں ہو سکتے‘ وہ کیا کر سکتے ہیں‘ انسانوں کو مار سکتے ہیں‘ کیا انسانیت کا مقدر یہی ہے۔ ہم ہر دو فریق میں سے کسی کی طرفداری نہیں کرنا چاہتے مگر ہمیں ان مسائل کا ادراک ہے جس کا انہیں سامنا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان کے تین روزہ دورے کے اختتام پر میڈیا کانفرنس میں سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کیا۔دریں اثنا ملائیشین وزیراعظم مہاتیر محمد نے کہاہے کہ کرپشن کی عفریت سے معاشرے میں اخلاقی اور مذہبی اقدار کو فروغ دے کر نمٹا جا سکتا ہے، اگر قیادت بدعنوان ہوگی تو اس عفریت سے نمٹنا بہت مشکل ہو گا،کرپشن میں ملوث افراد کو سزائیں دینے کیلئے قوانین بنانے چاہئیں ،پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان تجارت، معیشت اور سرمایہ کاری سمیت مختلف شعبوں میں تعاون اور باہمی تعلقات کو مستحکم بنانے کے لئے عوامی سطح پر رابطوں اور سیاحت کا فروغ ناگزیر ہے ۔ سر کاری ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویومیں مہاتیر محمد نے کہاکہ سزائوں کے ساتھ ساتھ بدعنوانی کی عفریت سے معاشرے میں اخلاقی اور مذہبی اقدار کو فروغ دے کر نمٹا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قیادت کو بدعنوان نہیں ہونا چاہیے اگر وہ بدعنوان ہوگی تو اس عفریت سے نمٹنا بہت مشکل ہو گا۔
اسلامو فوبیا کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسلام امن کا دین ہے اور وہ مار دھاڑ، قتل یا تشدد کی تعلیم نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم کیا غلط کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لوگ جنہیں اسلام کا کوئی علم نہیں ہے انہیں میڈیا کے استعمال کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے اپنے ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے انڈسٹریلائزیشن کو فروغ دے کر اور مقامی و غیرملکی سرمایہ کاروں کے لئے پرکشش ماحول بنا کر یہ کامیابی حاصل کی۔
انڈسٹریلائزیشن کے لئے بیرونی سرمایہ کاروں کو مختلف مراعات دی گئیں، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مقامی لوگوں نے غیرملکی کمپنیوں کے ساتھ کام کر کے تکنیکی مہارت اور سوجھ بوجھ حاصل کی اور پھر اپنی صنعتیں لگائیں۔ انہوں نے کہا کہ فنی تعلیم، مہارت میں اضافہ اور علم پر مبنی اطلاعات و ٹیکنالوجیز پاکستان سمیت کسی بھی ملک کی صنعتکاری کے لئے بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملائیشیا کی گاڑیاں بنانے والی کمپنی پروٹون کراچی میں پاکستان کی الحاج آٹو موٹیو کمپنی کے ساتھ مل کر کار سازی کا پلانٹ لگا رہی ہے اور آئندہ سال جون میں یہاں پروٹون کی کار تیار ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ وہ اس دورے سے خوش ہیں جس میں انہیں پاکستانی قیادت کے ساتھ تبادلہ خیال کا موقع ملا اور دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون اور تجارت کے شعبوں میں تعاون کی نشاندہی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ امن اور استحکام دونوں سیاحت کے فروغ کے لئے اہم اقدامات ہیں اور کسی بھی ملک کی ترقی اور معاشی خوشحالی کیلئے یہ بنیاد ہیں۔ ڈاکٹر مہاتیر محمد نے کہا کہ ہر سال ملائیشیا میں ایک بڑی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔
ملائیشیا کی آبادی 3کروڑ 20لاکھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قیام کے دوران انہوں نے سکون محسوس کیا ہے، پاکستان میں سیاحت کے فروغ اور صلاحیت کے تمام مواقع موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان آکر اور وزیراعظم عمران خان سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی ،عمران خان کے بارے میں میں نے اس وقت سے پڑھ رکھا تھا جب وہ کرکٹر تھے ، بعد ازاں وہ پاکستان آئے اور سیاست شروع کی ، میں نے ہمیشہ عمران خان کیلئے نیک تمنائوں کا اظہار کیا ہے ،ہماری اس وقت سے قریبی دوستی تھی جب وہ وزیراعظم کے منصب پر فائز نہیں ہوئے تھے ۔
عمران خان ملائیشیا میں بہت مشہور ہیں اور بطور کرکٹر ان کے بہت سے چاہنے والے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ عمران خان کو قوم کی رہنمائی کا موقع ملنا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ کوئی فرد جب وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو جائے تو اسے اپنے پیچھے ایک مثال چھوڑنی چاہیے اور جب وہ چلا جائے تب بھی اس کے نقوش باقی رہیں ، جب آپ وزیراعظم بن جاتے ہیں تو قدرت آپ کو ملک کیلئے بہت کچھ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے ۔
ایک وزیراعظم کا کام لوگوں کی خدمت کرنا ہے اس کیلئے آپ کو نظریات اور دوسرے کامیاب ممالک کی تقلید کرنی چاہیے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے احکامات لیتے ہیں اور جب ان احکامات پر عمل درآمد کرتے ہیں تو ہمارے حالات مزید بگڑ جاتے ہیں ، یہ ادارے جو کچھ کرتے ہیں اس کا مقصدیہ ہوتا ہے کہ ہم ان کے قرضے اتارنے کے قابل ہو جائیں لیکن اس کیلئے ہمیں مزید قرضے لینے پڑتے ہیں ، یہ مسائل کا حل نہیں ہے ۔