پاکستانی فلموں کے ایک اداکار ہوتے تھے خالد سلیم موٹا‘ یہ فلموں میں فائیٹر کا کردار ادا کرتے تھے اور ہر فلم میں مار کھاتے تھے‘ مجھے ان کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا‘انہوں نے اس انٹرویو میں کہا تھا میں وہ بدنصیب اداکار ہوں جس کا فلموں میں مار کھانے کے علاوہ کوئی کام نہیں‘ فلموں کے پروڈیوسر‘ کہانی نویس‘ ہدایت کار‘ ہیرو‘ ولن حتیٰ کہ کہانی بھی بدل جاتی ہے
لیکن اگر کوئی چیز نہیں بدلتی تو وہ میں اور میری مار ہے‘ میں نے ہر فلم میں صرف مار ہی کھانی ہوتی ہے۔ مجھے اکثر اوقات پاکستان کی پولیس بھی خالد سلیم موٹا محسوس ہوتی ہے‘ حکومت یا اپوزیشن کوئی بھی ہو پولیس کا صرف ایک ہی کام ہے اور وہ کام ہے مار کھانا‘ ملک میں جلسہ ہو‘ جلوس ہو‘ ریلی ہو یا پھر دھرنا ہو‘ حکومت پیپلز پارٹی کی ہو‘ ن لیگ کی ہو یا پھر تحریک انصاف کی ہو اور اپوزیشن خواہ پی ٹی آئی ہو‘ ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی ہو پولیس نے صرف مار ہی کھانی ہوتی ہے‘ آپ بدنصیبی ملاحظہ کیجئے‘ پولیس اگر مظاہرین کو روکے تو یہ مظاہرین سے کٹ کھاتی ہے اور یہ اگر نہ روکے تو یہ حکومت کے عتاب کا نشانہ بنتی ہے‘ آپ کو یقیناًیہ مناظر اور یہ دعوے یاد ہوں گے اور آپ آج کے مناظر اور گفتگو بھی ملاحظہ کیجئے، آپ دیکھ لیجئے کیا تبدیل ہوا‘ صرف عمران خان سڑک سے وزیراعظم ہاؤس شفٹ ہوگئے اور بس پولیس کل ان سے مار کھا رہی تھی‘ یہ آج پیپلزپارٹی سے مار کھا رہی ہے‘ کل ن لیگ تحریک انصاف کا جمہوری حق نہیں دے رہی تھی اور آج تحریک انصاف پیپلز پارٹی کو اس کا جمہوری حق نہیں دے رہی اور یہ ہے ہمارا سارا سسٹم‘ ہم بہرحال آج کے ایشو کی طرف آتے ہیں ، احتساب ایک مقدس فریضہ ہے‘ یہ مقدس فریضہ پاکستان میں متنازعہ کیوں بن گیا؟ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔