پی ایس ایل بہر حال زبردست کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گئی‘ کراچی میں آٹھ میچ ہوئے‘ انٹرنیشنل کھلاڑی آئے اور ان میں انڈین سٹاف اور مہمان بھی شامل تھے‘ سٹیڈیم بھی بھر گئے اور لوگوں نے کھل کر انجوائے بھی کیا‘ یہ کامیابی ثابت کرتی ہے ہم اگر کچھ کرنا چاہیں تو ہم بڑی آسانی سے کر لیتے ہیں‘ ہم مشکل ترین حالات میں بھی پی ایس ایل کرا سکتے ہیں‘
اب سوال یہ ہے وہ قوم جو اتنا بڑا ایونٹ کرا سکتی ہے کیا وہ نیب کے قوانین میں ایسی تبدیلیاں نہیں کر سکتی جن کے ذریعے احتساب کے عمل کو شفاف بھی بنایا جا سکے اور اکراس دی بورڈ بھی‘ میرا خیال ہے ملک کی تینوں بڑی جماعتیں بڑی آسانی سے یہ کر سکتی ہیں لیکن یہ کرنا نہیں چاہتیں کیونکہ تینوں پارٹیوں کے سربراہ سمجھتے ہیں ہم نے جتنا مزہ چکھنا تھا چکھ لیا اب دوسروں کی باری ہے‘ اردو میں اس صورت حال کو کہتے ہیں ‘ میرا کچھ نہیں رہا اب تیرا بھی کچھ نہیں رہے گا‘ اس تیرے میرے سے کسی کا کچھ نہیں بگڑ رہا لیکن ملک کا بہت نقصان ہو رہا ہے‘ بیورو کریسی اور کاروباری طبقے نے کام کرنا تقریباً چھوڑ دیا ہے‘ رہی سہی کسر ایک خودکشی نے پوری کر دی‘ تین دن قبل سی ڈی اے کے سابق افسر بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر نے نیب کی انکوائری سے تنگ آ کر خود کشی کر لی‘ یہ انٹیلی جینس میں بھی رہے اور یہ نیب میں بھی کام کرتے رہے ‘ جب ان جیسے بااثر شخص کے ساتھ یہ ہوا تو آپ باقی لوگوں کی صورتحال کا بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں‘ نیب کے قوانین اور سسٹم میں اگر کوئی خرابی ہے تو ساری جماعتیں مل کر یہ خرابی دور کیوں نہیں کر لیتیں‘ یہ لوگ مزید کتنی لاشوں کا انتظار کر رہے ہیں‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا‘ سیاسی محاذ ایک بار پھر گرم ہو رہا ہے، این آر او کی آوازیں دب گئی تھیں لیکن یہ ایک بار پھر اٹھ رہی ہیں‘ کیوں؟ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے دنوں کی گنتی شروع ہو گئی‘ ہم اس پر بھی بات کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔