اسلام آباد(آئی این پی) نیب کے جس کیس کو مبینہ طور پر سابق ممبر سی ڈی اے بریگیڈیئر(ر) اسد منیر کی مبینہ خودکشی کی وجہ قراردیا جا رہا ہے یہ 2016کے اوا ئل میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی طرف سے نیب کو تحقیقات کیلئے ارسال کیا گیا تھا ،نیب نے سابق ممبر سی ڈی اے بر یگیڈ یئر(ر) اسد منیر اور سابق چیئرمین سی ڈی اے سمیت سی ڈی اے بورڈ
ا ر کا ن کیخلاف سیکٹر ایف الیون ون کے پلاٹ کی غیر قانونی بحا لی پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ہدایت پر انکوائری شروع کی تھی ،جس میں پی اے سی کا کہنا تھا پلاٹ بحال کر کے قومی خزانے کو 381ملین رو پے کا نقصا ن پہنچایا گیا ذرائع کے مطابق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے معاملہ پرسخت برہمی کا بھی اظہارکیا تھا ۔ذرائع کے مطابق نیب نے جب تحقیقات شروع کی تو معلوم ہوا مذکورہ پلاٹ کے مالک نے 1998میں سی ڈی اے کو یہ پلاٹ واپس کر کے اپنی رقم واپس لے لی تھی جس کے بعد یہ پلاٹ سی ڈی اے کی ملکیت بن گیا تھا ۔سی ڈی اے نے 2005میں ایک پالیسی کا اعلان کیا جس کے مطابق شہریوں کو منسوخ شدہ پلاٹ بحال کرنے کی پیشکش کی گئی ۔پلاٹ نمبر20سیکٹر ایف الیون ون کے سابق مالک نے نئی پالیسی کی آڑ میں اپنے واپس کئے گئے پلاٹ کی بحالی کی کوشش کی اور سی ڈی اے نے اسکی درخواست مسترد کردی کیونکہ یہ پلاٹ منسوخ شدہ نہیں تھا بلکہ یہ رضا کارانہ طور پر سر نڈر کر کے اسکی رقم واپس لی گئی تھی تاہم بعد ازاں مذکورہ پلاٹ کا مالک اپنا پلاٹ منسوخ شدہ پلاٹوں کی بحالی کی آڑ میں واپس لینے میں کامیاب ہوگیا ۔ نیب نے پی اے سی کے احکامات کی روشنی میں 2017 میں سابق چیئرمین سی ڈی اے اور بورڈ ممبران کو طلب کر کے ان سے تحقیقات کیں جن میں بریگیڈیئر(ر) اسد منیر کا بھی بیان ریکارڈ کیا گیاتھا۔
ذرائع کے مطابق پلاٹ کے مالک نے اپنے پلاٹ کی غیر قانونی بحالی کے فوری بعد اسے اپنے بیٹے کوکاغذوں میں ایک کروڑ20لاکھ روپے میں فروخت کردیا تا کہ وہ سی ڈی اے اور دیگر سرکاری ٹیکس بچا سکے جس کے بعد پلاٹ مالک کے بیٹے نے یہ پلاٹ ایک کروڑ60لاکھ روپے میں آگے فروخت کردیا،اس کیس میں سابق چیئر مین سی ڈی اے سمیت سات سی ڈی اے افسران کو ملزمان قراردیا گیا ہے ۔