ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

بلاول بھٹو کی جیل میں نواز شریف سے ملاقات،چیئرمین پی پی نے سابق وزیر اعظم سے کیا درخواست کردی؟

datetime 11  مارچ‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور( این این آئی) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں وفد نے کوٹ لکھپت جیل میں سابق وزیراعظم و مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف سے ملاقات کر کے ان کی عیادت کی ، اس موقع پر ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال ، حکومت کی کارکردگی اور میثاق جمہوریت کے حوالے سے بھی گفتگو ہوئی۔

بلاول بھٹو نے علاج کے معاملے میں حکومتی رویے کی شدید مذمت کرتے ہوئے نواز شریف کو اپنی صحت کی خاطر علاج معالجے کی سہولیات لینے کی درخواست کی جبکہ بلاول بھٹو نے کہا کہ نواز شریف اصولوں پر کھڑے ہیں اور مجھے نہیں لگتا کہ کوئی ڈیل ہوئی یا نواز شریف سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار ہیں ،میثاق جمہوریت کے تمام نکات پر عملدرآمد نہ ہونا پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی ناکامی ہے اور اب موجودہ حالات میںمیثاق جمہوریت کیساتھ اسی طرز کی نئی دستاویز تیار کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں قمر زمان کائرہ، مصطفی نواز کھوکھر، امداد سومرو،حسن مرتضیٰ اور قاسم گیلانی پر مشتمل وفد نے کوٹ لکھپت جیل میں نواز شریف سے ملاقات کی جو تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی ۔ ملاقات کے دوران بلاول بھٹو نے نواز شریف سے ان کی صحت کے بارے میں آگاہی حاصل کی ۔ نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے وفد کو بتایا کہ کس طرح انہیں کئی مرتبہ جیل سے ہسپتال لیجایا گیا تاہم انہیں علاج معالجے کی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔پیپلز پارٹی کے وفد نے حکومتی رویے پر تشویش کا اظہا رکرتے ہوئے اسکی مذمت کی جبکہ بلاول بھٹو نے نواز شریف سے درخواست کی کہ انہیں اپنی صحت کو ترجیح دینی چاہیے اور علاج معالجے کی سہولیات لینی چاہئیں ۔

اس موقع پر ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال، حکومت کی کارکردگی اور میثاق جمہوریت کے حوالے سے بھی گفتگو کی گئی ۔ بلاول بھٹو نے نواز شریف سے اپنے والد آصف زرداری کی جانب سے بھی مزاج پرسی کی جس پر نواز شریف نے ان کا شکریہ ادا کیا ۔ ملاقات کے بعد پارٹی رہنمائوں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ نواز شریف کی صحت کے بارے میں پوچھنے کیلئے کوٹ لکھپت جیل آیا۔

آج ایک تاریخی دن ہے کیونکہ شہید ذوالفقا رعلی بھٹو اور پیپلز پارٹی کے کارکن آمریت کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے یہاں سیاسی قیدی بنے جبکہ میرے والد نے بھی اس جیل میں وقت گزارا ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے دکھ ہو رہا تھاکہ تین بار ملک کا وزیر اعظم رہنے والا شخص کوٹ لکھپت جیل میں سزا بھگت رہا ہے ۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ ہیں لیکن یہ ہماری روایات ہیں او رہمارا دین بھی کہتا ہے کہ بیمار شخص کی مزاج پرسی کرو ۔

حکمرانوں کو پہلے انسان اور پھر حکمران ہونا چاہیے ۔ کسی بھی عام قیدی کے ساتھ بھی نا انصافی اور اس کی بے عزتی نہیں ہونی چاہیے ۔ جو بھی قیدی بیمار ہو اسے علاج معالجے کی بہترین سہولیات ملنی چاہیں اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ نواز شریف کو یہ سہولیات فراہم کرے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک دل کے مریض کو تنائو میں رکھنا بھی ایک طرح کا تشدد ہے ۔ انہوںنے کہا کہ نواز شریف کافی بیمار لگ رہے تھے اور میں نے ان سے درخواست کی ہے کہ علاج کرانا آپ کی ترجیح ہونی چاہیے ۔

مطالبہ کرتا ہوں کہ حکومت نواز شریف کو علاج معالجے کی بہترین سولیات فراہم کرے اور ان کی جہاں خواہش ہے انہیں اس کے مطابق علاج کی سہولیات دی جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے رویے کے خلاف وزیر اعظم انسانی حقوق کی باتیں کر رہے ہیں جبکہ اپنے ملک کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے شخص کو علاج کی سہولیات نہیں دی جارہیں جس سے ملک اور دنیا میں اچھا پیغام نہیں جارہا ۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 2006ء میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف نے دستخط کئے تھے ۔

دونوں جماعتوں نے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھا تھا او رطے کیا تھاکہ ہم ملک کو صحیح سمت میں چلائیں گے ،سیاسی جماعتوں کو ایک ضابطہ اخلاق طے کرنا ہے کہ ہم کیسے چلیں گے ۔پیپلز پارٹی او ر(ن) لیگ کی ناکامی ہے کہ میثاق جمہوریت کے تمام نکات پر عملدرآمد نہیں ہو سکا ۔ اس کے تحت عدالتی اصلاحات پر کام ہونا تھا ، آمریت کے دور میں جو کالے قانون بنائے گئے انہیں ختم کرنا تھا جو نہیں کئے گئے ۔ پیپلز پارٹی یہ سوچ رکھتی ہے کہ اس پر غور ہونا چاہیے ۔ پاکستان کی جو سیاسی مشکلات ، نظام میں کمزوریاں ہیں ان کا حل نکالنا چاہیے اور ہم جمہوریت پسند جماعتوں سے اس کیلئے بات کریں گے۔

انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آج کی ملاقات کا مقصداور فوکس نواز شریف کی صحت بارے پوچھنا تھا تاہم جب سیاسی لوگ ملتے ہیں تو ان میں سیاسی باتیں ہوتی ہیں اور ملاقات میں میثاق جمہوریت پر بات ہوئی ہے کہ ہمیں اسے فعال او رمضبوط کرنا چاہیے ۔ انہوں نے نواز شریف سے ملاقات کے دوران کسی ڈیل کے تاثر کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ میر ے والد نے کسی جرم کے بغیر ساڑھے گیارہ سال جیل میں گزارے اور کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا جب یہ نہ کہا گیا ہو کہ ہم بھاگ رہے ہیں اور آج میاں صاحب کے حوالے سے بھی لوگ اسی طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے کہا ہے کہ وہ نظریاتی بن گئے ہیںاور اسی عزم کے ساتھ سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے ۔مجھے ایسا نہیں لگا کہ ڈیل ہوئی ہو یا نواز شریف سمجھوتے کے لئے تیار ہیں ، نواز شریف اصولوں پر قائم ہیں اور امید ہے کہ (ن) لیگ بھی اسی پر قائم رہے گی ۔ انہوں نے عمران خان کی تنقید کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ ملک میں جو حالات تھے پورا ملک متحد تھا اور اس کی پوری دنیا میں تعریف ہوئی ۔

میں نے پارلیمان میں بھارت کے خلاف مضبوط موقف اپنایا اور حکومت کے حوالے سے بھی جو بات کی وہ تعمیری تھی ، اس کے ساتھ میں سپیکر سے بار بار کہا کہ خارجہ پالیسی ، آئین اور معیشت کے لئے پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ چلنے اور کام کرنے کیلئے تیار ہے ۔ شاہ محمود قریشی نے میری ہر بات کا جواب دیا اور انہوں نے اپنے تجربے کے مطابق جواب دیا اور تسلیم کیا کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ ٹھیک ہے ۔ میں نے انگریزی میں بات کی تو شاہ محمود قریشی نے اپنی تقریر میں مجھ سے زیادہ انگریزی کا استعمال کیا ۔

مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اسد عمر نے میرے یا شاہ محمود قریشی پر تنقید کی ، مجھے پڑھے لکھے جاہل وزیر اسد عمر پر دکھ ہو رہا تھا ۔ انہیں دکھ ہے کہ میں اپنے نام کے ساتھ بھٹو کیوں استعمال کرتا ہوں،میں نے نوٹیفکیشن نہیں نکالا کہ باپ کا نام استعمال نہ کریں ،سیاست میں اتنی منافقت اچھی نہیں ۔ انہوںنے اپوزیشن الائنس کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ ملاقات الائنس کیلئے نہیں تھی بلکہ طبیعت پہنچنے حاضر ہوا تھا او رالائنس کی باتیں قبل از وقت ہیں ۔

اپوزیشن نے پارلیمان میں طے کیا ہے کہ ہم انسانی ، معاشی اور جمہوری حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ انہوں نے میثاق جمہوریت کے حوالے سے پی ٹی آئی کی شمولیت کے حوالے سے کہا کہ کوشش ہو گی کہ جمہوریت پسند لوگوں سے بات ہو اجو تعمیری تجاویز دے سکتے ہو، پی ٹی آئی میں وہ سنجیدہ لوگ جنہوں نے اس جماعت کو نظریاتی سمجھ کر شمولیت اختیار کی تھی شاید موجودو ہوں ہم انہیں خوش آمدید کہیں گے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ عمران خان اس میں دلچسپی لیں گے ۔

انہوں نے کہا کہ میرے شہباز شریف اور (ن) لیگ کے رہنمائوں سے رابطے ہوتے رہتے ہیں اگر میری مریم نواز شریف سے ملاقات ہوتی ہے تواس میں کوئی حرج نہیں اور مجھے خوشی ہو گی ۔ انہوں نے مریم نواز کی خاموشی کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ وہ خاموش ہیں ، اس وقت ان پر والد کی بیماری کی ذمہ داری ہے وہ یقینی طو رپر سیاسی طور پر مصروف ہوں گی اوران کے بیانات بھی آتے رہتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنے کندھوں پر ایک بوجھ کے ساتھ اس جیل میں آیا ہوں اور میں نہیں چاہتا کوئی اور اس دکھ سے گزرے ، نواز شریف اس ملک کے وزیر اعظم رہے ہیں اور میں نہیں چاہتا کہ کل عمران خان کو بھی یہ دیکھنا پڑے اور ان کے بچے انصاف کے لئے ادھراْدھر بھاگتے پھریں ۔ ملک میں قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے جس کی وجہ سے کسی وزیر اعظم اورعام آدمی کے ساتھ بھی نا انصافی نہیں ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ جب پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ نے میثاق جمہوری کیا تھا تو اپنی اپنی غلطیوں کی معافی مانگی تھی اور ایک دوسرے کو معاف کیا تھا ۔ نواز شریف نے کہا ہے کہ میں نظر یاتی ہوں اور میںامید رکھتا ہوں کہ ان کی جماعت سیاست میں اپنا کردار ادا کرے گی ۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…