دنیا میں ماضی سے زیادہ خوفناک کوئی چیز نہیں ہوتی‘ اگر کوئی شخص ہمارا ماضی اٹھا کر ہمارے سامنے رکھ دے تو ہم میں سے نوے فیصد لوگ اپنی نظروں کے ساتھ بھی نظریں نہ ملا سکیں‘ میں آج کی کابینہ کے دو وزراء کے ماضی کے دو کلپس آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اور پھر ان سے پوچھنا چاہتا ہوں آپ آج اپنے ماضی کے ساتھ نظریں کیسے ملائیں گے،
یہ فیصلہ کون کرے گا، گزرے ہوئے کل کے شیخ رشید اور شہریار آفریدی ٹھیک تھے یا پھر آج کے شہریار آفریدی اور شیخ رشید ٹھیک ہیں اور اگر یہ واقعی 40 سال کا گند ہے جسے حکومت نے صاف کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو پھر حافظ سعید کے پاؤں دھوکر وضو کرنے کی نصیحت کرنے والے لوگ کون ہیں‘ حکومت نے کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے‘ یہ فیصلہ ٹھیک ہے یا غلط اس کا فیصلہ وقت کرے گا لیکن سوال یہ ہے کل تک جو لوگ ان لوگوں کو سپورٹ کرتے تھے یا پھر ان کے بینرز کے سائے میں الیکشن لڑتے تھے یا پھر ان کے جلسوں میں تقریریں کرتے تھے کیا ان لوگوں کو قوم سے معافی نہیں مانگنی چاہیے‘ انہیں اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرنا چاہیے اور اس کی کیا گارنٹی ہے یہ لوگ کل کو دوبارہ ان لوگوں کے پاؤں دھو کر وضو نہیں کریں گے‘ ہم آج کے موضوعات کی طرف آتے ہیں، قومی اسمبلی یک جہتی کے معمولی سے مظاہرے کے بعد دوبارہ دارالنفاق بن گئی‘ حکومت نے اپوزیشن کے احتجاج کے درمیان ترمیمی فنانس بل پاس کرا لیا‘ اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے فلور پر پہلی مرتبہ نماز بھی ادا کی‘ اس سیاسی افراتفری کے ساتھ حکومت کا مستقبل کیا ہے‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔