جنرل صالح زندانی عرب ملک یمن کے ڈپٹی آرمی چیف تھے‘ یہ 10 جنوری کو یمن کے شہر عدن میں فوجی پریڈکی تقریب میں شریک تھے، اچانک حوثی انقلابیوں نے ڈرون کے ذریعے تقریب پر حملہ کر دیا‘ بم پھٹا اور اس میں سات لوگ جاں بحق ہو گئے جبکہ 20 شدید زخمی ہو گئے‘ جنرل صالح کو ہسپتال لے جایا گیا تو پتہ چلا پورے یمن میں بم دھماکوں کے دوران زخمی ہونے والے لوگوں کیلئے کوئی معیاری ہسپتال اور ڈاکٹر موجود نہیں ہیں‘ حکومت نے فوری طور پر
یو اے ای کی حکومت سے درخواست کی‘ دبئی حکومت نے اپنا طیارہ بھجوایا‘ جنرل صالح کودبئی لایا گیا‘ ان کا علاج شروع کیا گیا لیکن اس سارے پروسیس کے دوران اتنی دیر ہو چکی تھی کہ یہ دبئی کے ہسپتال میں انتقال فرما گئے‘ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے اگر یمن کی حکومت نے ملک میں اچھے ہسپتال بنائے ہوتے تو شاید ان کی جان اس طرح نہ جاتی‘ مجھے یہ واقعہ میاں نواز شریف کے ساتھ ہونے والے تازہ ترین سلوک کی وجہ سے یاد آیا‘ تین بار وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف جیل‘ ہسپتالوں اور میڈیکل بورڈز کے درمیان شٹل کاک بن چکے ہیں‘ ان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر آج مریم نواز بھی زبان کھولنے پر مجبور ہوگئیں، یہ اعتراضات سر آنکھوں پر لیکن سوال یہ ہے اگر حکمرانوں نے قانون‘ عدالتوں‘ جیلوں اور میڈیکل بورڈز پر توجہ دی ہوتی‘ اگر انہوں نے جنرل صالح کی طرح سسٹم بنا دیا ہوتا تو آج ان کے ساتھ یہ سلوک نہ ہو رہا ہوتا‘ یہ آج یوں اعتراض نہ کر رہے ہوتے‘ اس واقعے میں موجودہ حکومت کیلئے بھی ایک سبق چھپا ہے‘ انہوں نے بھی اگر سسٹم کو اپ گریڈ نہ کیا تو یہ بھی کل آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کی طرح ضمانت کراتے اور جیلوں اور ہسپتالوں کے درمیان فٹ بال بنتے نظر آئیں گے‘ ہم آج کے موضوع کی طرف آتے ہیں، کیا میاں شہباز شریف کو واقعی مستعفی ہو جانا چاہیے اور کیا موجودہ حکومت نے واقعی معیشت کا جنازہ نکال دیا‘ یہ دونوں ایشوز آج ہمارے پروگرام کا موضوع ہوں گے جبکہ ہم میاں نواز شریف کی صحت کے بارے میں بھی بات کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔