لاہور (ا ین این آئی) احتساب عدالت نے پاکستان تحریک انصاف سینئر رہنما عبدالعلیم خان کو مبینہ طور پر آمدن سے زائد اثاثہ جات بنانے کے کیس میں 9روزہ جسمانی ریمانڈ پر قومی احتساب بیورو (نیب ) کی تحویل میں دیدیا ، عدالت نے ملزم کو دوبارہ 15فروری کو پیش کرنے کا حکم دیا ہے ۔احتساب عدالت کے جج سید نجم الحسن نے کیس کی سماعت کی۔نیب لاہور کی جانب سے عبدالعلیم خان کو سخت سکیورٹی میں عدالت پیش کیا گیا ۔
علیم خان کی جانب سے ا نکے وکلاء امجد پرویز اور اظہر صدیق جبکہ نیب کی جانب سے پراسیکیوٹر وارث جنجوعہ عدالت میں پیش ہوئے۔نیب ریفرنس میں شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے علیم خان کی جانب سے وکالت نامہ پیش کیا ۔تحریک انصاف کے رہنما شعیب صدیقی ، آجاسم شریف ،لائرز فورم کے وکلاء سمیت پارٹی کارکن بھی کمرہ عدالت میں پہنچ گئے ،کمرہ عدالت میں شدید رش کی وجہ سے تل دھرنے کی جگہ نہ رہی اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کی کمرہ عدالت کے اندر بھی شدید نعرے بازی جاری رہی ۔تحریک انصاف کے رہنما شعیب صدیقی نے کارکنان کو باہر جانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کارکنان اور تحریک انصاف لائرز فورم کے وکلاء شور شرابے سے اجتناب کریں ، جب تک آپ لوگ شور کرتے رہے گی تب تک عدالتی کارروائی شروع نہیں ہو سکے گی۔سماعت کے آغاز پر جج نجم الحسن نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے علیم خان سے کہاکہ آپ کا کوئی بندہ عدالت سے باہر رہ تو نہیں گیا، کوئی باہر رہ گیا ہے تو اس کو بھی اندر بلوا لیں۔عدالت نے استفسار کیا کہ جنہوں نے علیم خان کو پیش کیا ہے، ہ کدھر ہیں۔نیب پراسیکیوٹر وارث علی جنجوعہ روسٹرم پر پہنچ گئے تاہم انہیں شدید رش کی وجہ سے روسٹرم پر آنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔
نیب پراسیکیوٹر وارث علی جنجوعہ نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ عبدالعلیم خان سنہ 2002ء میں ایک کروڑ90لاکھ کاپرائزبانڈنکلا، 109ملین باہر سے ان کے والد کو آمدن آئی ۔پرائز بانڈ کو ہم تسلیم کرتے ہیں لیکن جو پیسے باہر سے آئے اس کے متعلق یہ جواب نہیں دے سکے لہٰذا ہم انہیں نہیں مانتے انہوں نے وزارت کے دوران یہ اثاثے بنائے۔2003ء میں ایم پی اے منتخب ہوئے اس دران انہوں نے 900 کنال پراپرٹی بنائی، 2003ء میں عبدالعلیم خان نے ڈیرھ کروڑ روپے کا گھر خریدا۔
2005میں عبدالعلیم خان نے اپنی بیوی کے نام کمپنی بنائی، کمپنی میں بھاری رقم کی سرمایہ کاری کی۔ان کے اثاثہ جات ان کی آمدن سے بہت زیادہ ہیں،2003 میں انہوں نے 18 ملین اور 2017ء میں 871 ملین کے اثاثہ جات ظاہر کئے،انکوائری کے دوران یہ اثاثہ جات بارے مطمئن نہیں کر سکے۔عدالت سے استدعا کی کہ ملزم کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔نیب کی درخواست پر عبدالعلیم خان کے وکیل نے جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کی اور کہا کہ
ہم نے انکوائری کے دوران سب کچھ بتا دیا تھا،سعودی بنک سے قرض لیا اور اراضی خریدی وہ اراضی ہم سے ڈی ایچ اے نے خرید لی،الیکشن کمیشن کو اپنے تمام اثاثہ جات ظاہر کر چکے ہیں، ان کے موکل کے تمام اثاثہ جات قانون کے مطابق ریکارڈ پر موجود ہیں۔نیب کے پاس علیم خان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں نہ ہی ان کے خلاف کسی نے کوئی شکایت کی، وہ جب وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی تھے اس وقت تو محکمے کا بجٹ ہی بہت کم تھا۔
انہیں والدین سے جو پیسے ورثے میں ملے وہ سب ڈیکلیئر ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ نیب کو گزشتہ 3 سال سے تمام ریکارڈ پیش کر رہے ہیں، نیب کوئی ایسا اثاثہ دیکھا دے جو غیر قانونی ہو، میرے موکل کو صرف سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔وکیل علیم خان نے الزام لگایا کہ جب ہم نیب سے تعاون کر رہے تھے تو گرفتاری کی وجوہات سمجھ سے بالا ہیں، علیم خان اپنے تمام دستاویزات جمع کرا چکے ہیں اس کے باوجود لاہور ہائی کورٹ میں انکے خلاف بے بنیاد کیسسز بنائے گئے ۔
عدالت میں علیم خان نے خود بھی اپنا موقف پیش کیا اور کہا کہ نیب کے پاس آج جو بھی کاغذات ہیں وہ میں نے خود دیئے تھے، اگر نیب کوئی ایک کاغذ دکھا دے جو نیب نے خود منگوایا ہو تو جو کہیں گے میں کروں گا۔انہوں نے کہا کہ ایک مرلے کا بھی اثاثہ بتائیں جو میں نے ڈیکلیئر نہ کیا ہو، جو جو ڈاکومنٹس نیب نے مانگے انہیں مہیا کیے۔علیم خان کا کہنا تھا کہ کمپنی کے 878 ملین کے اثاثہ جات ڈیکلیئر کیے ہیں۔
ان کے سیاست میں آنے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ حکومتی رقم سے سب کچھ بنایا۔انہوں نے کہا کہ مجھے بتایا گیا کہ میری جانب سے ایک خط نیب کو گیا جس پر چیئرمین نیب ناراض ہیں، کیا ناراضگی پر گرفتار کیا جاتا ہے؟،حلفاً کہتا ہوں میرے وکیل کی جانب سے نیب کو بھجوائے گئے خط کا کوئی علم نہیں۔ اپنی صفائی میں علیم خان نے کہا کہ میرے دوروں کی تمام سرکاری رقم ریکارڈ پر موجود ہے، نیب نے کل جب بلایا تو میں نے مکمل تعاون کیا۔
جو سوالنامہ مجھے دیا گیا وہ 3 سوالات پر مشتمل تھااس دوران ڈیڑھ گھنٹے تک مجھ سے مسلسل تفتیش کی اور سوالات پر سوالات کیے گئے جبکہ میں نے تمام سوالات کا جواب دیا البتہ جن کا علم نہیں تھا ان کے لیے وقت مانگا۔جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ علیم خان کے اثاثے ان کی آمدن سے زائد ہیں اور وہ نیب کو دورانِ تفتیش مطمئن نہیں کرسکے، جب وہ سوالات کا جواب نہیں دے سکے تو نیب نے انہیں حراست میں لیا۔
فریقین کے دلائل سننے کے بعد علیم خان کو 15 فروری تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا۔علیم خان کی عدالت پیشی کے موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے ۔ احتساب عدالت کو آنے والے راستے کنٹینرز اور خاردار تاریں لگا کر بند کر دئیے گئے۔ لوئر مال کی دونوں سڑکوں کو ایم اے او کالج سے سیکرٹریٹ چوک تک بند کرکے ٹریفک کو متبادل راستوں کی جانب موڑ دیا گیا، اس کے علاوہ اینٹی رائٹ فورس کے دستے بھی احتساب عدالت کے اطراف تعینات کئے گئے تھے۔
عبدالعلیم خان کے سے اظہار یکجہتی کیلئے کارکنوں کی بڑی تعداد بھی نیب آفس کے باہر پہنچی اور کارکنان علیم خان کے حق میں نعرے بازی کرتے رہے ۔واضح رہے کہ نیب لاہور نے بدھ کے روز علیم خان کو آف شور کمپنی اسکینڈل اور آمدن سے زائد اثاثوں کی تفتیش کے لیے طلب کیا تھا، جس کے لیے وہ نیب آفس پہنچے جہاں انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔گرفتاری کے بعد علیم خان نے سینئر صوبائی وزیر بلدیات کی وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔