24 دسمبر کو نیب کورٹ میاں نواز شریف کے خلاف العزیزیہ سٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ کے کیسز کا فیصلہ سنائے گا جبکہ اسی دن سپریم کورٹ میں جعلی اکاؤنٹس پر جے آئی ٹی کی رپورٹ کھولی جائے گی‘ یہ رپورٹ ساڑھے سات ہزار صفحات پر مشتمل ہے‘ اس کے بارہ والیمز ہیں‘ ۔۔اس میں چار بڑے بزنس گروپوں کی منی لانڈرنگ کے ثبوت ہیں اور ۔۔اس میں ایک سو چار جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے 210 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی ٹپس ہیں‘
آج تک کی صورتحال کے مطابق آصف علی زرداری‘ بلاول بھٹو‘ فریال تالپور اور مراد علی شاہ یہ چاروں ۔۔اس سکینڈل میں پھنستے ہوئے نظر آ رہے ہیں چنانچہ 24 دسمبر کا دن دونوں پارٹیوں کی تاریخ کا اہم ترین دن ہو گا۔ دونوں جماعتوں نے قائدین کی گرفتاری کے بعد ملک گیر احتجاج کا فیصلہ کیا ہے‘ یہ احتجاج کتنا پر اثر ثابت ہوتا ہے‘ ہم اس پر آنے والے دنوں میں بات کریں گے لیکن جہاں تک احتساب کا ایشو ہے ہمیں اس پر چند سوالوں کے جواب چاہئیں‘ پہلا سوال‘ کیا احتساب کا مطلب صرف لوگوں کی گرفتاری‘ مقدمے اور جیلیں ہیں یا پھر لوٹی ہوئی دولت کی واپسی بھی اس میں شامل ہے‘ میاں نواز شریف کو پانامہ سکینڈل میں سزا ہو ئی لیکن ہم آج تک ان فلیٹس کا قبضہ حاصل نہیں کر سکے جن کی بنیاد پر یہ مقدمہ بنا تھا‘ کیا العزیزیہ‘ فلیگ شپ اور جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے لانڈر ہونے والی منی واپس لانا سٹیٹ کی ذمہ داری نہیں اور اگر یہ دولت بھی سوئس اکاؤنٹس کے 60 ملین ڈالر کی طرح واپس نہیں آتی تو پھر اس احتساب کا کیا فائدہ ہوگا‘ کیا ریاست مجرموں کی حفاظت‘ جیل میں وی آئی پی انتظامات اور سرکاری نگرانی میں جہازوں کے ذریعے مجرموں کو پارلیمنٹ ہاؤس اور عدالتوں میں لانے پر مزید کروڑوں روپے ضائع نہیں کر ے گی‘ دوسرا سوال‘ یہ کیا گارنٹی ہے کسی سیاسی مجبوری یا کسی بین الاقوامی دباؤ کے تحت زرداری صاحب کو دوبارہ این آر او نہیں دیا جائے گا اور میاں صاحب کو جیل سے نکال کر سعودی عرب نہیں بھجوایا جائے گا اور تیسرا سوال‘ ایک ہی قسم کے جرم میں جنرل پرویز مشرف اور پی ٹی آئی کے لوگوں کے ساتھ دوسرا رویہ ،اس کی کیا جسٹی فکیشن ہے‘ ان سوالوں کا جواب کون دے گا؟ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگاجبکہ ملک میں ایک دوسرے کو نااہل ثابت کرنے کی جنگ بھی شروع ہو چکی ہے‘ ہم اس پر بھی بات کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔