لاہور (نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے غیر میعاری رپورٹ آنے پر پیپسی نوبہار نامی کمپنی کو بند کرنے کا حکم دیتے ہوئے نیسلے سمیت دیگر کمپنیوں کو 10 روز میں خامیاں دور کرنے کی ہدایت کردی۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے زیرِ زمین پانی نکال کر فروخت کرنے والی کمپنیوں سے متعلق از خود کیس کی سماعت سپریم کورٹ لاہور رجسٹری
میں کی۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈائریکٹر جنرل فوڈز اتھارٹی کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ناقص پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کے خلاف مقدمات درج کیوں نہیں کروائے گئے؟۔ڈی جی فوڈ نے عدالت کو بتایا کہ ان کمپنیوں کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں مگر انتظامیہ نے ان نوٹسز کو وصول کرنے سے انکار کردیا۔سماعت کے دوران آڈیٹر جنرل کی رپورٹ بھی پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ ایک ڈیڑھ لیٹر پانی کی بوتل پر پیکنگ سمیت آٹھ روپے 79 پیسے لاگت آتی ہے۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ پانی کی قیمت کم کرنے پر غور کیا جارہا ہے، یہ شہریوں کی زندگی کا معاملہ ہے اور اس میں سخت کارروائی کی جائے گی۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ پانی فروخت کرنے والی کمپنیاں جھوٹ بول کر کروڑوں روپے کمارہی ہیں، جب تک بڑے آدمی پر ہاتھ نہیں ڈالا جائے گا وہ درست کام نہیں کرے گا۔نیسلے کمپنی کے سی ای او بھی عدالت میں پیش ہوئے جن سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پاکستان میں پانی کا میعار برقرار کیوں نہیں رکھا گیا؟۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان کے ساتھ تیسری دنیا والا سلوک اور امتیازی سلوک نہیں ہونے دیں گے۔سماعت کے دوران پیپسی نوبہار کے مالک عدنان خان اور ڈی جی فوڈز اتھارٹی کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور اس دوران پیپسی نوبہار کمپنی کے مالک نے ان سے بدتمیزی بھی کی جس پر عدالت نے
برہمی کا اظہار کیا۔چیف جسٹس نے عدنان خان کی سرزنش کی تاہم عدالت میں معافی مانگنے پر انہیں گرفتار ہونے سے روک دیا گیا۔عدالت عظمی نے شیزان کمپنی کی انسپکشن کروانے کی ہدایت کی جبکہ معیاری پانی فروخت کرنے پر ایک کمپنی کی تعریف بھی کی اور ریمارکس دیئے کہ صاف پانی فروخت کرنے والی کمپنیاں قابل تحسین ہیں۔عدالت نے غیر میعاری رپورٹ آنے پر پیپسی نوبہار نامی کمپنی کو بند کرنے کا حکم دے دیا جبکہ معروف کمپنی نیسلے سمیت پانی فروخت کرنے والی تمام کمپنیوں کو 10 روز کے اندر پانی سے متعلق خامیاں دور کرنے کی ہدایت بھی کردی۔سپریم کورٹ نے عدالتی کمیشن کو ملک بھر میں پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کی انسپکشن کرنے کی دیتے ہوئے کیس کی سماعت 3 دسمبر تک ملتوی کردی۔