اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی خواہش ہے کہ انہیں این آر او مل جائے لیکن عمران خان کبھی این آر او نہیں دیں گے۔ سابق صدر آصف زرداری سمیت دیگر سیاستدان جیل چلے گئے تو ملک کے حالات بہتر ہونگے،سابق حکومت کے آڈٹ تک ہم پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کی چیئرمین شپ اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں ۔
آسیہ بی بی پاکستان میں سکیورٹی اداروں کے زیر نگرانی ہے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر اطلاعات نے اتوار کے روز نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہر چیز کو کارپٹ کے نیچے ڈالنے کا کلچر بن گیا ہے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے کرپشن پر پردہ نہیں ڈال سکتے ہیں اور پی ٹی آئی معا ملات کو ایسے نہیں چلانے دے گی کیونکہ ہم پارلیمنٹ کو ایسا ادارہ بنانا چاہتے ہیں جس کا لوگ دل سے احترام کریں اور اگر ہم احتساب کے لئے اپنے آپکو پیش کریں گے تو دوسرے اداروں کا بھی احتساب کر سکیں گے۔ فواد چوہدری نے اپوزیشن جماعت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آخر وزراء کرپشن پر پارلیمنٹ میں کیوں بات کر سکتے ہیں جس طرح قوم کے پیسوں کو بے دردی سے لوٹا گیااسکی کوئی اہمیت نہیں ہے عوام نے ہمیں ملک سنوارنے کے لئے ووٹ دیا تھا اور اب ہم ملک لوٹنے والوں کے ساتھ ہاتھ ملا کرعوام کے ووٹ کو پس پشت ڈال دیں تاکہ ہمارا اقتدار چلتا رہے وزیر اطلاعات و نشریات نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ نیب میں موجودہ حکومت نے ایک چپڑاسی تک نہیں لگایا اگر نیب کرپشن کی تحقیقات کر رہا ہے تو کیا ہم نے چئیرمین نیب کو تعینات کیا تھا بلکہ سابق حکومت اورخورشید شاہ نے ملکر نیب کے چیئرمین کو تعینات کیا اور اگر یہ کہیں کہ حکومت کرپشن کیسز کی پیروی نہ کرے تو یہ ناممکن ہے ۔
انہوں نے کہا کہاپوزیشن کی خواہش ہے کہ این آر ہو جائے لیکن عمران خان کو پوری قوم جانتی ہے اور وزیر اعظم کسی کے پریشر میں نہیں آتے اور وہ کبھی بھی این آراو نہیں کریں گے ۔وفاقی وزیر اطلاعات نے جعلی اکاؤنٹس کے بارے میں کہا کہ 5 ہزار جعلی اکاؤنٹ بنائے گئے ہیں اب آخر پتہ چلنا چاہئے کہ یہ اکاؤنٹ کس نے بنائے ہیں لیکن اب سپریم کورٹ نے اس حوالے سے جے آئی ٹی بنا دی ہے عدالتی تحقیقات کو دیکھ رہے ہیں جیسے کوئی فیصلہ آئے گا تو ایف آئی اے حکومت کا ماتحت ادارہ ہے۔
عدالتی فیصلے کی تحقیقات کرائیں گے ۔ ایک سوال کے جواب میں فواد چوہدری نے کہا کہ آصف زرداری کو اندازہ ہی نہیں کہ وہ عوام میں کتنے غیر مقبول ہیں کیونکہ وہ محلوں سے باہر نہیں آتے تاکہ انکو اپنی اہمیت کا اندازہ ہو اگرآصف زرداری سمیت دیگر سیاست دان جیل چلے بھی گئے تو ملکی حالات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا انہو ں نے کہا کہ پبلک اکاؤنٹ کمیٹی حکومت اس وقت تک اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے جب تک سابق حکومت کا آڈٹ چل رہا ہے بعد میں مسلم لیگ (ن) جسے بھی پی اے سی کا چئیرمین نامزد کرے ہمیں کوئی مسلہ نہیں ہوگا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ آئی ایم ایف سے ہمارے مذاکرات چل رہے ہیں۔ مہنگائی کی شرح میں اضافے پر بات کرنے والے سیاست دان اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں ہماری حکومت انہی کے ثمرات بھگت رہی ہے لیکن ہم معاملات کو سنبھال چکے ہیں اور ہمیں ابتدائی کامیابیاں بھی مل چکی ہیں اب ملک کا مستقبل روشن ہے ۔وزیر اطلاعت نے الیکشن 2018 میں دھاندلی پر اپوزیشن کے شور شرابے پر کہا کہ آئین کے آرٹیکل 225 کے تحت کوئی سیاسی پارٹی بھی آئین سے بالاتر نہیں ہے ۔
اب اپوزیشن مطالبہ کرتی ہے کہ پورے الیکشن کی تحقیقات ہونی چاہیے جو کہ آئین کے آرٹیکل 225 کے تحت ممکن نہیں ہے لیکن انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے لیے پارلیمانی کمیٹی بات چیت شروع کرنے کے لیے بنائی ہے انہوں نے سپریم کورٹ میں توہین رسالت کیس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آسیہ بی بی پاکستان میں ہیں اور سکیورٹی ادارے انکی حفاظت پر مامور ہیں سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی حکومت اس پر عمل درآمد کرائے گی فوج عدلیہ حکومت اور اسکی وزارتیں ایک پیج پر ہیں اور اگر ادارے ایک پیج پرنہ ہوں تو پھر سسٹم نہیں چل سکتا ہے۔
پنجاب میں وزیراعلیٰ اور حکومتی اتحادی جماعت (ق) لیگ میں دوریوں سے متعلق سوال پر فواد چوہدری نے کہا کہ پرویز الہیٰ اور عثمان بزدار آمنے سامنے آئے تو ہم عثمان بزدار کے ساتھ ہوں گے لیکن ایسے حالات کبھی پیدا نہیں ہونے دیں گے۔وفاقی وزیر اطلاعات نے حالیہ دھرنوں سے متعلق کہا کہ دھرنے والوں سے معاہدہ حالات پر امن رکھنے کے لیے کیا بات چیت کے دوران کچھ لو اور کچھ دو کرنا پڑتا ہے اس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لئے بھی ایک موثر باڈی بنا رہے ہیں جو کہ سوشل ،ڈیجیٹل اور الیکٹرانک میڈیا کو ریگولیٹ کرے گی۔ انہوں نے حکومتی 100 روزکارکردگی کے سوال کے جواب میں بتایا کہ حکومت کے 100 دن پورے ہونے پر وزیراعظم 29 نومبر کو قوم کو اعتماد میں لیں گے اور بتائیں گے پہلے ہم کہاں اور آج ہم کہاں کھڑے ہیں اور وزراء کو کارکردگی پر ہٹانا وزیراعظم کا استحقاق ہے۔