اسلام آباد (این این آئی) وزیر مملکت برائے داخلہ شہر یار خان آفریدی نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زر داری کے بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کی تمام اکائیاں ٗ سول و ملٹری قیادت ایک پیج پر ہیں ٗ ایوان میں بیٹھے ہر فرد کا ایجنڈا انسانیت ہے ٗ اللہ کو ماننے والا اللہ کے سوا کسی کے سامنے سر نہیں جکاتا ٗ کسی کو کسی سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ٗ آسیہ بی بی اور اس کے خاندان ٗ
فیصلہ دینے والے ججز کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے جبکہ جبکہ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ ختم نبوت کے قانون میں کسی قسم کی ترمیم نہیں لائی جارہی۔ جمعرات کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ شہریار خان آفریدی نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس ملک کو جس اتفاق رائے کی ضرورت ہے پاکستان کی تمام وفاقی اکائیاں‘ سول و ملرٹی قیادت ایک ہے‘ جب یہ ہوگا تو پاکستان کے مفادات کا تحفظ ہوگا اور بحرانوں سے نجات ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس ایوان میں بیٹھے ہر فرد کا ایجنڈا انسانیت ہے۔ اس پارلیمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ انسانی رویوں کا جائزہ لے۔ وزیراعظم مدینہ جاتے ہیں تو نبی اکرمﷺ کی محبت میں پاؤں میں جوتے نہیں پہنتے‘ ہمارا ایمان ہے کہ جب تک نبیﷺ کی محبت ہمیں اپنی ہر چیز سے افضل نہ ہو‘ ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں قانون کی حکمرانی اور بالادستی پر سمجھوتہ نہ کرنے کا پیغام دیا۔ بلاول بھٹو کی جانب سے اس کو سراہا گیا‘ کسی کو کسی سے سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں۔ مسجد‘ مدرسہ اور اس سے جڑے تمام معاملات کو عزت ریاست دے گی۔ انہوں نے کہا کہ مذہب کے نام پر اپنی دکانیں بنائی گئیں‘ نئے پاکستان میں اس کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ یہی نیا پاکستان ہے۔ جان اللہ کی امانت ہے اس میں عہدے اور جان کچھ نہیں۔ اللہ کو ماننے والا اللہ کے سوا کسی کے سامنے سر نہیں جھکاتا۔ انہوں نے کہا کہ آسیہ بی بی اور اس کے خاندان ‘ فیصلہ دینے والے معزز ججوں کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔
وزیر مملکت نے کہاکہ سول ملٹری سمیت تمام فریقین ایک پیج پر ہیں ٗ جو بھی لوگ سڑکوں پر نکلے ہیں اور راستے بند کر رہے ہیں تمام فریقین کے ساتھ اس معاملہ پر بات چیت ہوئی، فیصلہ یہ ہوا کہ طاقت کا استعمال نہ ہو۔ بات چیت جاری ہے‘ عنقریب پوری قوم کو خوشخبری ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس پر اگر کوئی سیاست کرنے کی سوچ رکھتا ہے اس کو اللہ کی مار پڑے گی اور ریاست بھی اس کے خلاف کارروائی کرے گی۔
وزیر مملکت برائے داخلہ نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھ کر غور کریں گے ٗپاکستان تمام جماعتوں کا ہے، پاکستان میں لاقانونیت ہوتی ہے، حالات معمول سے ہٹتے ہیں تو سب کے لئے مسائل ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بارے میں دنیا میں جو تاثر اس وقت پایا جاتا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ایک وقت تھا جب یہ کہا جارہا تھا کہ تحریک انصاف کے ہاتھوں میں اقتدار کی لکیر نہیں ہے‘ اللہ نے ہمیں اقتدار دیا۔
وفاقی وزیر ہاؤسنگ چوہدری طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ نبی اکرمﷺ کی غلامی‘ عشق اور محبت سے اس کرہ ارض پر کوئی مسلمان انکاری نہیں۔ اپوزیشن کی طرف سے اس صورتحال سے اچھی تجویز آئی‘ صورتحال خراب ہے کوئی اس کو تسلیم نہیں کرتا تو یہ غلط ہے، ہم اپوزیشن کی تجاویز کو زیر غور لائیں گے کہ کیسے اس صورتحال سے نکلیں۔ اس معاملہ کو ہوا دینے کی بجائے اس پر مل بیٹھ کر حل سوچیں، حکومت کا اس فیصلے میں کوئی کردار نہیں ہے،
حکومت امن و امان کی صورتحال کنٹرول کرنا چاہتی ہے، یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے، نبیؐ کی عزت‘ حرمت کیلئے ہم سب کی جانیں حاضر ہیں، یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہونا چاہیے، اپوزیشن سے استدعا ہے کہ وہ سنجیدگی سے حکومت کا ساتھ دے۔ اسرائیلی طیارے کی آمد کے حوالے سے وضاحتیں بھی قبول نہیں کی جارہی، اب ان کو ناموس رسالت کے قانون میں تبدیلی کے خواب آرہے ہیں،
کوئی یہ جرات نہیں کر سکتا کہ ناموس رسالت قانون میں ترمیم کرے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ننگے پاؤں روضہ رسول پر حاضری دیتے ہیں، علماء کرام ہماری رہنمائی کریں، آصف زرداری اور خواجہ سعد رفیق کی باتیں سن کر ہمارا حوصلہ بڑھا ہے، سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے بغیر ملک کے مسائل کے حل کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے‘ ہم ان کا اس سلسلے میں خیر مقدم کریں گے۔ جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ مذہب کے نام پر لوگوں کو لڑانے کی باتیں درست نہیں ہیں،
نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو ہر دور میں سر قلم کئے گئے، نبیﷺ کی شان میں گستاخی نہیں سن سکتے، ملک میں امن و امان کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے، وزیراعظم 22 کروڑ عوام کے نمائندے ہیں، وزیراعظم کو فیصلے کے بعد ایوان کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا اگر وہ یہ کام کر لیتے تو یہ صورتحال نہ ہوتی۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر خالد حسین مگسی نے کہا کہ امام الانبیاءﷺ کی شان میں گستاخی کوئی برداشت نہیں کرسکتا، کچھ چیزیں سیاست سے بالاتر ہونی چاہئیں، ہمیں مل بیٹھ کر معاملے کو سلجھانا چاہیے،
ایم کیو ایم کے رکن صابر حسین قائمخانی نے کہا کہ ناموس رسالت پر ہر مسلمان اپنی جان دینے کے لئے تیار ہے، توہین رسالت پر نبی کریم ﷺ کے دور میں بھی موت کی سزا تھی۔ ریاض فتیانہ نے کہا کہ یہ ملک ہے تو ہماری سیاست بھی ہے‘ ہمیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کی سیاست سے گریز کرنا چاہیے۔ توہین رسالت کی سزا موت ہے، ہمیں برداشت‘ عدل و انصاف کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ہمیں موجودہ صورتحال کا جائزہ لینا ہوگا، جون 2009ء میں آسیہ بی بی پر توہین رسالت کا مقدمہ درج ہوا اور 2010ء میں انہیں سزائے موت کی سزا سنائی گئی، 2014ء میں ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔
اب نو سال کے بعد اسے بری کردیا گیا۔ اس دوران سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا۔ ممتاز قادری کو پھانسی دی گئی۔ اس دوران جذبات بھڑکتے رہے۔ اگر 2009ء میں فیصلہ ہوجاتا تو اتنے جذبات نہ بھڑکتے۔ ممتاز قادری کا کسی جماعت سے تعلق نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریر سے معلوم ہوا کہ کیا ہوا۔ وزیراعظم کے اعلان کے بعد کیا قانونی کارروائی ہوئی، ہم نے ممتاز قادری کی اپیل مسترد ہونے کے بعد کئی بار ان لوگوں سے مذاکرات کئے تاہم 2018ء کے انتخابات میں مذہبی ووٹ ہمارے خلاف پڑنے کی غرض سے معاملہ حل نہیں ہونے دیا گیا، سپریم کورٹ کے فیصلے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اجلاس کے دور ان جمعیت علماء اسلام (ف) کے رکن مفتی عبدالشکور نے اپنی تقریر میں کہا کہ ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کی کوششیں کی جارہی ہیں جس پر سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ ختم نبوت کے قانون میں کوئی ترمیم نہیں لائی جارہی۔