اسلام آباد(آن لائن)وزیر اعظم عمران خان کا ایک اور فیصلہ متنازعہ ہو گیا ۔ نئے گورنر گلگت بلتستان راجہ جلال حسین مقپون کے حلف اٹھاتے ہی ان کے خلاف 32 کروڑ روپے سے زائد کی کرپشن کا سکینڈل سامنے آ گیا ۔ نیب نے معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہے ۔ کرپشن کے یہ الزامات وزارت دفاع اور سول ایوی ایشن اتھارٹی نے عائد کئے ہیں تاہم گورنر گلگت بلتستان نے ان الزام کو غلط قرار دیا ہے اور جواباً الزام عائد کیا ہے کہ سرکاری لوگ اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں ۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی نے میری زمینوں کے معاوضوں کی مد میں تقریباً 26 کروڑ روپے ادا کرنے ہیں ۔ آن لائن سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے راجہ جلال نے کہا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی اور میرے مابین آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ پر اتفاق ہو گیا ہے اور چند روز میں ڈیل فائنل ہو جائے گی ۔آن لائن کو باوثوق ذرائع سے ملنے والی معلومات اور دستیاب دستاویزات کے مطابق سول ایوی ایشن اتھارٹی نے راجہ جلال کو اتھارٹی کی ملکیتی زمین سے کئی ہزار ٹن مٹی چوری کر کے واپڈا کو فروخت کرنے پر تقریباً 6 کروڑ روپے کی ر یکوری کا نوٹس دے رکھا ہے ۔ چوری کی مٹی سد پارہ ڈیم کی تعمیر میں استعمال کی گئی ۔راجہ جلال کی طرف سے واپڈا سے غیر قانونی طور پر وصول کردہ رقم واپس نہ کرنے پر اتھارٹی نے سول کورٹ سکردو میں کیس دائر کر دیا ہے ۔ علاوہ ازیں گورنر گلگت بلتستان پر الزام ہے کہ انہوں نے اتھارٹی کی ملکیتی سینکڑوں کنال اراضی پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے اور کاشتکاروں کے نام پر اپنے بندے بیٹھا رکھے ہیں ۔سول ایوی ایشن اتھارٹی نے قابضین کو باقاعدہ نوٹس جاری کر رکھا ہے ۔عدالتی دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ راجہ جلال حسین کے والد نے سد پارہ ڈیم کی تعمیر کے وقت اور اس سے قبل سکردو ایئرپورٹ کی تعمیر کے لئے وزارت دفاع کو ایک ہزار کنال اراضی فروخت کی جس کا باقاعدہ انتقال ہو چکا ہے ۔ بعدازاں راجہ جلال حسین نے والد کے انتقال کے بعد فروخت کی ہوئی بہت سی زمینوں پر خاموشی سے قبضہ کر لیا اور اپنے کاشتکار بیٹھا دیئے ۔
صورت حال کا اندازہ ہونے کے بعد اتھارٹی نے راجہ جلال کو چوری کی گئی مٹی کی رقم واپس کرنے اور زمینوں پر قبضہ ختم کرنے کا نوٹس دیا ۔ واضح رہے کہ 2000 ء تک مذکورہ تمام اراضی بمعہ انتقال نمبر 1631 ،1750 اور 1752 کا انتقال سول ایوی ایشن اتھارٹی کے نام پر ہو چکا تھا ۔ اتھارٹی کے نوٹس پر راجہ جلال نے واپڈا سے چوری کی گئی مٹی کی وصول شدہ رقم لوٹانے اور قبضہ ختم کرنے کے بجائے سول کورٹ سکردو میں 2002 ء میں کیس نمبر 33/2002 دائر کیا ۔
یہ کیس اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والا تھا کہ راجہ جلال نے عدالت سے اپنی پٹیشن میں ترمیم کی اجازت مانگی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔ معاملے کو لٹکانے کے لئے راجہ جلال نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سکردو کے پاس اپیل دائر کی جو مسترد ہو گئی ۔ بعدازاں یہ اپیل چیف کورٹ گلگت بلتستان میں دائر کی گئی جہاں 4 اکتوبر 2017 ء کو جسٹس ملک حق نواز اور جسٹس محمد عمر پر مشتمل بنچ نے اپیل خارج کر کے سول کورٹ کے فیصلے کو من و عن برقرار رکھا اور راجہ جلال کو کیس کے تمام اخراجات ادا کرنے کا حکم دیا ہے ۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے قیام سے قبل تمام معاملات وزارت دفاع دیکھ رہی تھی ۔ راجہ جلال نے اپنی پٹیشن میں ترمیم کی درخواست میں یہ نکتہ ابھی اٹھایا تھا کہ ان کی پٹیشن میں وزارت دفاع کو بطور فریق ہٹا کر سول ایوی ایشن ڈویژن کو واحد فریق رکھا جائے ۔ جس پر محکمے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اتھارٹی مکمل طور پر وزارت دفاع کے ماتحت ہے لہذا سیکرٹری دفاع کو اس کیس سے نہیں ہٹایا جا سکتا ۔ عدالت نے راجہ جلال کی استدعا مسترد کر دی ۔
آن لائن سے گفتگو کرتے گورنر گلگت بلتستان کے وکیل امجد ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ تو بہت پرانا معاملہ ہے اب چونکہ راجہ صاحب گورنر بن گئے ہیں تو لوگ اس معاملے کو غیر ضروری طور پر اچھال رہے ہیں یہ کرپشن نہیں دو فریقین کے مابین تنازعہ ہے کسی دور میں ایک سابقہ ڈی سی نے جو غیر مقامی تھا یہ سارے غلط انتقال الاٹ کروائے ۔ ڈسٹرکٹ اٹارنی سکردو قادر حسین نے آن لائن سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم سرکاری زمینوں کے تحفظ کے لئے عدالت کی معاونت کر رہے ہیں۔
ساری زمینیں باقاعدہ طور پر سول ایوی ایشن اتھارٹی کے نام منتقل ہو چکی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک یہاں سکردو میں چیف کورٹ کے فیصلے کی اطلاع نہیں ہے ۔ فیصلے کی مصدقہ نقول آنے کے بعد سول کورٹ سکردو میں کیس دوبارہ شروع ہو گا ۔سول ایوی ایشن کے وکیل ذاکر حسین نے ٹیلی فونک گفتگو میں بتایا کہ میں تو ادارے کی نمائندگی کر رہا ہوں ۔ مجھے جو ادارے نے بتایا اس کے مطابق میں نے کیس لڑا۔حقائق معلوم کرنے کے لئے اسلام آباد میں متعین سول ایوی ایشن اتھارٹی کی لیگل ایڈوائزر مس ماریہ سے رابطہ کریں ۔
اس معاملے پر سول ایوی ایشن کا موقف لینے کے لئے لیگل امور کی نگران مس ماریہ سے رابطے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی ۔ ذرائع کے مطابق نیب کو اس سکینڈل کے حوالے سے درخواست موصول ہو چکی ہے جس پر تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ادھر سوشل میڈیا پر گورنر گلگت بلتستان کے خلاف کرپشن سکینڈل کا بہت چرچا ہے ۔ گلگت بلتستان کے عوام عمران خان کے فیصلوں پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر امیر محمد خان جوگیزئی پر بھی الزامات تھے تو انہیں گورنر بلوچستان نامزد کرنے کے بعد فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ اسی طرح راجہ جلال حسین مقپون پر بھی شدید الزامات ہیں انہیں گورنر کے منصب پر نہیں بیٹھانا چاہئے تھا ۔