اسلام آباد(سی پی پی) احتساب عدالت میں فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے وکیل خواجہ حارث کی عدم حاضری پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا جبکہ پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کا بیان بھی قلمبند نہ ہوسکا۔احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک نے سابق وزیراعظم کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کی۔
عدالت نے فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں پیر کو پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کو بیان قلمبند کروانے کے لیے طلب کر رکھا تھا۔ سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔جس پر جج احتساب عدالت ارشد ملک نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے تھوڑی ہوتا ہے کہ ملزم اپنی مرضی سے آئے۔جبکہ معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ خواجہ حارث کی طبیعت خراب ہے۔نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا کہ نواز شریف نے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی دائر نہیں کی، یہ مرضی سے عدالت کو چلانا چاہتے ہیں۔اس موقع پر معاون وکیل نے کہا کہ میں اس طرح کے الفاظ استعمال نہیں کرنا چاہتا۔جس پر عدالت نے سماعت میں کچھ دیر کے لیے وقفہ کردیا۔وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر بھی نواز شریف اور وکیل خواجہ حارث پیش نہ ہوئے، جس پر جج ارشد ملک نے معاون وکیل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملزم بھی نہیں ہے اور وکیل بھی نہیں، میں سارا دن آپ کا انتظار کرتا رہوں گا ۔جج ارشد ملک نے مزید کہا کہ میں نے آپ کا کیس سننے کے لیے باقی کیس ملتوی کیے، مجھے بتادیں آپ لوگ چاہتے کیا ہیں؟ساتھ ہی انہوں نے کہا میں آرڈر لکھوا دیتا ہوں، آپ لوگ پھر چیلنج کرتے رہنا۔معاون وکیل نے معزز جج سے کہا کہ نواز شریف سے رابطہ کیا جارہا ہے، مجھے چند منٹ دے دیں پتہ کرکے بتاتا ہوں۔معاون وکیل نے مزید کہا کہ میں نے آصف کرمانی سے رابطے کی کوشش کی۔
وہ فون نہیں اٹھا رہے اور جن سے رابطہ ہوا وہ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کو آج عدالت پیش ہونا تھا۔بعدازاں معاون وکیل کی جانب سے احتساب عدالت کو بتایا گیا کہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور العزیزیہ ریفرنس کی الگ الگ تاریخوں کی وجہ سے غلط فہمی ہوئی، جس کی وجہ سے سابق وزیراعظم نواز شریف عدالت میں پیش نہیں ہوسکے۔معاون وکیل کا کہنا تھا کہ اگر عدالت وقت دے تو نواز شریف 2 سے 3گھنٹے میں پیش ہوجائیں گے، تاہم عدالت نے فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت 4 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کردی۔