اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سینئر صحافی منیر احمد بلوچ اپنے کالم ’’رکیے، جلدی مت کیجئے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ابھی تک سمجھ نہیں آ سکی کہ ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری دوستی سے وابستہ ہمارے دوست عوامی جمہوریہ چین نے فرانس میںFATF کے اجلاس میں امریکہ اور بھارت کی لابی میں قدم رکھتے ہوئے پاکستان سے کون سی محبت کا اظہار کیا‘ جس سے ہمیں ایک بار پھر گرے لسٹ میں رکھ دیا گیا ہے۔
گو کہ برادر اسلامی ملک سعودی عرب بھی خیر سے چین سمیت ان دوستوں میں شامل ہے‘ جس نے اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈالا‘ جس کا مطلب تو‘یہی ہوا کہ ہمالیہ جیسی بلند دوستی کے دعویدار بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی میں ملوث ہے۔بد قسمتی کہیے یا کچھ اور‘ ہمارے خلاف یہ فیصلہ اس وقت ہوا‘ جب میاں نواز شریف کی پاکستان پر حکومت تھی اور وہ اپنے بھائی میاں شہباز شریف کے ساتھ سی پیک‘ سی پیک کے راگ الاپتے ہوئے کہیں اورینج ٹرین‘ کہیں کول پاور پراجیکٹ تو‘ کہیں کراچی تک موٹر وے پر48 ارب ڈالر کی اس سرمایہ کاری کی خوش خبریاں سنا رہے تھے اور ارسطو سمیت ان کا ہر چھوٹا بڑا یہی کہے جا رہا تھا کہ سب دیکھے گے کہ اس سی پیک نے پاکستان کی قسمت بدل دینی ہے۔ پاکستان میں سوائے چند لاکھ لوگوں کے ممکن ہے‘ باقی عوام کو تو شاید یہ علم ہی نہ ہو کہ چین جیسے ہمارے دوست بھی FATF میں بھارت کی تائید کرتے ہوئے ہم پر گرے لسٹ کا پہاڑ گرا گئے ہیں۔ اب تو یہی خوف رہنے لگا ہے کہ اگلے کسی اجلاس میں امریکہ اور بھارت کے ایجنڈے کی تکمیل کرتے ہوئے گرے لسٹ سے بھی دو قدم آگے لے جاتے ہوئے ہمارے سی پیک کے دوست نے پھر سے تعاون کر دیا‘ تو پھر اس سی پیک کو کیا ہم نے چاٹنا ہے؟ یہ روڈ اور بیلٹ ہمارے کس کام کی؟ خود کو ارسطو سے بھی اوپر کی کوئی عقل مند شے سمجھنے والے اسلام آباد کی ایک محفل میں رات گئے قہقہہ لگاتے ہوئے فرما نے لگے ” ہم نے عمران کو اس حد تک پھنسا دیا ہے کہ اسے سمجھ ہی نہیں آئے گی کہ اسے کرنا کیا ہے۔
ابھی تو وہ تیس ہزار ارب ڈالر قرضوں کا رونا رو رہا ہے۔ا س کی اصل چیخیں‘تو اس وقت نکلیں گی‘جب اسے سی پیک کا وہ 30 ارب ڈالر بھی مع سود چین کوا دا کر نا پڑے گا‘ جو ہم اب تک خرچ کر چکے ہیں اور جس کا چند برس بعد سود ہی اس قدر زیا دہ ہوجائے گا کہ عمران خان کو بھاگنے کا کہیں رستہ نہیں ملے گا اور وہ خود چاہے گا کہ اسے نکال دیا جائے‘لیکن اس وقت ہم سب اس کا تما شا دیکھیں گے‘ لیکن یہ ہو گا کہ تبدیلی اور نئے پاکستان کا کانٹا اس وقت تک نکل چکا ہو گا اور اس کے بعد پھر وہی پی پی پی اور نواز لیگ پر مشتمل دو پارٹیوں کا سلسلہ ملک میں ایک ا چھی سیا ست کیلئے دوبارہ شروع ہو جائے گا‘‘۔