راولپنڈی (آن لائن) عدالت عالیہ راولپنڈی کے ڈویژن بنچ کے جسٹس عباد الرحمان لودھی اور جسٹس شاہدمبین پر مشتمل ڈویژن بنچ نے ایفی ڈرین کیس میں سابق رکن قومی اسمبلی محمد حنیف عبا سی کی سزا کے خلاف دائر اپیل میں اے این ایف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 2ہفتے میں جواب طلب کر لیا ہے جبکہ طبی بنیادوں پر حنیف عباسی کی ضمانت پر رہائی کی درخواست کو بھی اپیل کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے آئندہ تاریخ تک سماعت ملتوی کر دی ہے ۔
جبکہ ایفی ڈرین کوٹہ کیس کی ابتدائی ایف آئی آر میں ملزم نامزد ہو کر بعد ازاں وعدہ معاف گواہ بننے والی گریز فارما میں حنیف عباسی کی پارٹنر رضیہ زاہد بختاوری سمیت 3درخواست گزاروں کی اپیل پر اے این ایف کی جانب سے پیش کیا گیا نیا چالان معطل کر دیا ہے منگل کے روز سماعت کے موقع پر حنیف عباسی کے وکیل تنویر اقبال ایڈووکیٹ عدالت میں موجود تھے حنیف عباسی نے ایفی ڈرین کوٹہ کیس میں انسداد منشیات راولپنڈی کی خصوصی عدالت کے فیصلے کو عدالت عالیہ راولپنڈی بنچ میں چیلنج کررکھا ہے تنویر اقبال خان ایڈوکیٹ کے ذریعے نارکوٹکس ایکٹ1997کی سیکشن 48اور تعزیرات پاکستان کی سیکشن 410کے تحت دائراپیل میں موقف اختیار کیا ہے کہ اے این ایف پولیس نے 21جولائی2012نارکوٹکس ایکٹ کی سیکشن 9-Cاور14،15کے تحت مقدمہ نمبر41درج کیا تھا جس میں حنیف عباسی کے ساتھ رضیہ زاہد بختاوری کو ملزم نامزد کیا گیا تھا بعد ازاں رضیہ بختاوری کو گواہوں کی فہرست میں شامل کر کے 7دیگر افراد کو ملزم نامزد کر دیا گیا تھا مقدمہ کے اندراج کا علم ہونے پر درخواست گزار عبوری ضمانت کرانے کے بعد انوسٹی گیشن میں شامل ہوا بعد ازاں ہائی کورٹ نے عبوری ضمانت کنفرم کر دی۔ ضمانت منسوخی کے خلاف دائر اپیل بھی عدالت نے خارج کر دی اس دوران مقدمہ میں شامل بعض ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ۔
جنہوں نے ضمانت بعد از گرفتاری کروالی انویسٹی گیشن کے بعد ملزمان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی سیکشن 173کے تحت رپورٹ مجاز عدالت میں داخل کروائی گئی جس پر عدالت نے 29اکتوبر2014کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی دوران ٹرائل اے این ایف کی جانب سے36گواہ پیش کر کے تعزیرات پاکستان کی سیکشن 342کے تحت بیان ریکارڈ کئے درخواست گزار پر الزام ہے کہ اس نے گریز فارما سیوٹیکل کے نام پر ایفی درین کوٹہ حاصل کر کے اسے ادویات سازی میں استعمال کرنے کی بجائے سمگل کر دیا اور درخواست گزار نے مروجہ قوانین کے مطابق ریکارڈ مرتب نہیں کیا ۔
حالانکہ دوران ٹرائل پراسیکوشن اپنے الزامات ثابت نہیں کر سکی اپیل میں ماتحت عدالت کے فیصلے کے پیرا گراف نمبر55اور56کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس طرح تحقیقات اور ٹرائل کے دوران کسی قسم کے ابہام کا فائدہ درخواست گزار کو ملنا چاہئے تھا لیکن عدالت کی جانب سے شک کا فائدہ درخواست گزار کو دینے کی بجائے صوابدیدی اور خود ساختہ وجوہات کی بنا پر درخواست گزار کو سزا سنائی گئی اس طرح عدالت نے پراسیکیوشن کی جانب سے پیش کئے جانے والے شواہد کی بجائے تصوراتی بنیادوں پر فیصلہ جاری کیا اور عدالت نے حقائق کے برعکس 137کلو گرام ایفی ڈرین کے استعمال کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
جبکہ فیصلے کے پیرا گراف نمبر47کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دستاویزات سے ثابت ہے کہ گریز فارما نے ڈی-ایزم (De-Asm) گولیاں بنانے کے بعد عرفات ٹریڈرز کراچی ،اے بی فارما اور حماس فارما راولپنڈی کو سپلائی کیں تحقیقات کے دوران اے بی فارما اور حماس فارمانے نہ صرف ادویات کی سپلائی کو تسلیم کیا بلکہ تمام دستیاب ریکارڈ بھی فراہم کیا جبکہ گواہ نمبر7راول ٹاؤن کے سابق ڈرگ انسپکٹر نوید انور نے نے بوہڑ بازار راولپنڈی سے ڈی ایزم گولیوں کے نمونے لیبارٹری تجزیئے کے لئے بھجوائے جو معیاری ثابت ہوئے۔
جس کی تصدیق بعد ازاں ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری لاہور نے بھی کی اپیل میں کہا گیا ہے کہ پراسیکوشن درخواست گزار کے خلاف تمام الزامات ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ٹرائل میں قانونی تقاضے پورے نہ کر کے درخواست گزار کو شفاف ٹرائل سے محروم رکھا گیا اپیل میں انسداد منشیات راولپنڈی کی عدالت کے فیصلے کو متنازعہ اور جانبداری پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پراسیکوشن ریکارڈ کے مطابق درخواست گزار کے خلاف نارکوٹکس ایکٹ کے تحت کوئی الزام ثابت نہیں ہو تا ۔
جبکہ نارکوٹکس ایکٹ کے شیڈول میں ایفی ڈرین کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے اس طرح قانون میں واضح نہ ہونے کے باوجود حقیقت پسندی کو نظر انداز کیا گیا اپیل میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار مکمل طور پر بے گناہ ہے اوردرخواست گزار کے خلاف تحقیقات اور ٹرائل کے دوران نارکوٹکس ایکٹ(CNSA)1997کے تحت کوئی بھی مواد یا شواہد پیش نہیں کئے جا سکے اور محض گمان اور امکانات کے تحت درخواست گزار کو سزا سنائی گئی سزا کی معطلی کے لئے دائر اپیل میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار کو دی جانے والی سزا خلاف قانون حقائق کے منافی ہے۔
دوران ٹرائل جب درخواست ضمانت پر تھا تو اس دوران بھی ضمانت کے غلط استعمال کا کوئی الزام درخواست گزار پر نہیں ہے درخواست میں کہا گیا ہے کہ عد التی فیصلے تک ماتحت عدالت کا فیصلہ معطل کر کے درخواست گزار کو ضمانت پر رہا کیا جائے یاد رہے کہ انسداد منشیات راولپنڈی کی خصوصی عدالت نے21جولائی 2018کو نارکوٹکس ایکٹ1997کی سیکشن 9-Cاور14,15کے تحت عمر قید ار10لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی عدم ادائیگی جرمانہ پر حنیف عباسی کو مزید2سال قید کی سزا بھگتنا ہو گی جبکہ سیکشن16کے تحت حنیف عباسی کو 1سال قیداور5ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں حنیف عباسی کو مزید1ماہ قید بھگتنا ہو گی۔