انڈیا کے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے 22 ستمبر کو پاکستان کو دھمکی دی، پاکستان میں اس بیان پر شدید رد عمل سامنے آیا‘
عوام میں اشتعال پیدا ہوا اور یہ اشتعال سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں دیکھا گیا‘ عوام نے حکومت سے بھارت سے لڑنے اور لڑائی کے دوران ایٹمی ہتھیار تک استعمال کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا‘ میں اس مطالبے سے اتفاق نہیں کرتا‘ ایٹم بم دنیا کا آخری ہتھیار ہے‘ یہ ہتھیار جس دن جس نے بھی استعمال کر دیا دنیا اس کے بعد سلامت نہیں رہ سکے گی‘ مارنے والے اور مرنے والے دونوں فنا ہو جائیں گے چنانچہ حالات جتنے بھی گھمبیر اور مشکل ہو جائیں ایٹمی جنگ نہیں ہونی چاہیے‘ ڈی جی آئی ایس پی آر نے انڈین آرمی چیف کو بہت پولائیٹ جواب دیا‘ ان کا کہنا تھا، ہم جنگ کیلئے تیار ہیں لیکن ہم نے امن کا راستہ چنا ہے‘ ہمارا خیال تھا انڈیا ہمارے ردعمل پر اپنے ہارسز ہولڈ کر لے گا لیکن انڈین آرمی چیف نے ایک بار پھر سرجیکل سٹرائیکس کا بیان دے کر پاکستان کو سرخ جھنڈی دکھا دی، انڈیا کیا چاہتا ہے‘ کیا بھارت جنگ لڑنا چاہتا ہے‘ اگر ہاں تو کیا یہ خطہ‘ جس میں دو ایٹمی طاقتیں موجود ہیں کیا یہ جنگ افورڈ کر سکتا ہے؟ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا جبکہ عمران خان نے 21 اگست کو ٹویٹ کے ذریعے انڈیا کو ایک پیغام دیا تھا‘ یہ ٹویٹ سفارتی سطح پر پسند نہیں کیا گیا‘ ہم اسے ناتجربہ کاری کہیں یا پھر سفارتی حماقت ہم اس پر بھی بات کریں گے اور آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی گرما گرمی ہوئی‘ ہم اس پر بھی بات کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔