اسلام آباد ہائی کورٹ نے آج میاں نواز شریف‘ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی سزا معطل کرکے ان کی رہائی کا حکم جاری کر دیا، تینوں ملزمان رہائی کے بعد لاہور پہنچ گئے، ہائی کورٹ کا دو رکنی بینچ 16 جولائی سے نیب کے وکیل سے صرف تین سوالوں کا جواب پوچھتا رہا‘ کیا نیب کے پاس کوئی ایسا ٹھوس ثبوت موجود ہے جس کے ذریعے یہ ثابت ہوتا ہے لندن کے چاروں فلیٹس میاں نواز شریف کی ملکیت ہیں‘
دو‘ نیب کورٹ نے سزا سے پہلے فلیٹس کی قیمت کا کیسے تعین کیا اور تین نیب اگر میاں نواز شریف کی ملکیت سٹیبلش نہیں کر سکا تو نیب کورٹ نے یہ فیصلہ کس بنیاد پر کیا‘ مریم نواز ان فلیٹس کی بینی فیشل اونر ہیں‘ نیب کا وکیل پانچ پیشیوں میں ان تینوں سوالات کا جواب نہیں دے سکا چنانچہ ہائی کورٹ نے سزا معطل کرکے ملزمان کو رہا کر دیا‘ نیب نے یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ فیصلے کے بعد ایک دلچسپ صورتحال سامنے آتی ہے‘ عمران خان نے 2018ء کا پورا الیکشن اس فیصلے کی بنیاد پر لڑا تھا‘ یہ فیصلہ معطل ہو گیا اس کے بعد میاں نواز شریف کے خلاف عمران خان کا پورا بیانیہ دم توڑ گیا‘ اب حکومت کس منہ سے نواز شریف کو کرپٹ کہے گی‘ دو ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ثابت ہو گیا عمران خان کو وزیراعظم بنانے کیلئے میاں نواز شریف کو جیل میں رکھا گیا تھا چنانچہ آج کے دن نے 2018ء کے پورے الیکشن پر سوالیہ نشان لگا دیا‘ تین‘ اکتوبر میں 37 حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوں گے‘ ان حلقوں میں قومی اسمبلی کے 11 اور صوبائی اسمبلیوں کے 24 حلقے شامل ہیں‘ میاں نواز شریف اب اگر ان حلقوں سے ن لیگ کے امیدوار کامیاب کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کیا 2018ء کے الیکشن کے نتائج جعلی ثابت نہیں ہو جائیں گے لہٰذا آج کے دن نے درجن کے قریب ایسے سوالیہ نشان پیدا کر دیئے ہیں جن کا جواب مستقبل دیر تک دیتا رہے گا۔میاں نواز شریف کی سیاست اب کیسی ہو گی‘
یہ خاموش رہیں گے یا پھر یہ زخمی شیر کی طرح پلٹ کر حملہ کریں گے‘ مریم نواز آج کے بعد تقریباً بے گناہ ثابت ہو گئی ہیں‘ اب ان کے خلاف کرپشن کا کوئی اور کیس موجود نہیں‘ کیا یہ اب الیکشن لڑ کر قومی اسمبلی میں آئیں گی اور اپوزیشن لیڈر بنیں گی اور میاں نواز شریف کرپٹ ہیں‘ حکومت کے پاس اس فیصلے کے بعد اب کیا جواب دے گی‘ ہم آج کے پروگرام میں یہ تمام نقطے ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔