اسلام آباد(سی پی پی)ملک میں صدر کے چناؤکیلئے انتخابات کل چارستمبر کو ہوں گے ، پارلیمنٹ (قومی اسمبلی و سینیٹ)سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ووٹنگ ہوگی، قومی اسمبلی، سینیٹ اور بلوچستان اسمبلی کے اراکین کے ایک ایک ووٹ ہوں گے،عددی اعتبار سے تحریک انصاف کو دیگر جماعتوں پر برتری حاصل ہے، اپوزیشن کی تقسیم سے پی ٹی آئی امیدوار کو ہی فائدہ ہوگا۔
ترجمان قومی اسمبلی کے مطابق صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدارتی الیکشن کے لیے ووٹنگ مورخہ 4ستمبر 2018بروز منگل پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آبادمیں ہو گی۔صدارتی انتخات کے لیے پولنگ صبح 10بجے سے سہ پہر 4بجے تک جاری رہے گی۔اِس موقع پرالیکشن کمیشن آف پاکستان نے ممبران قومی اسمبلی کے لئے قومی اسمبلی کی جانب سے جاری کردہ Identity Cardکو ہمراہ لانا لازمی قرار دیا ہے۔معزز ممبران قومی اسمبلی سے درخواست کی جاتی ہے کہ صدارتی الیکشن کی ووٹنگ کے لیے قومی اسمبلی کا کارڈ ہمراہ لانا یقینی بنائیں۔ ادھر الیکشن کمیشن کی جانب سے صدارتی انتخاب کی تمام تیاریاں مکمل کرلیں اور اس سلسلے میں پارلیمنٹ ہاؤس اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں پولنگ اسٹیشن قائم کردیے گئے۔صدارتی انتخاب کے لییکل منگل کو ہونے والی پولنگ کے لیے بیلٹ پیپرز اور دیگر سامان متعلقہ اسمبلیوں میں پہنچا دیا گیا ہے۔بیلٹ پیپر پر پیپلز پارٹی کے امیدوار اعتزاز احسن کا نام پہلے نمبر پر موجود ہے جب کہ تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی دوسرے اور مولانا فضل الرحمان کا نام تیسرے نمبر پر درج ہے۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر)سردار محمد رضا صدارتی انتخاب کے لیے ریٹرنگ آفیسر ہیں جبکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور سینٹ و قومی اسمبلی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پریزائیڈنگ آفیسر کی ذمہ داری سر انجام دیں گے۔
الیکشن کمیشن نے ووٹر فہرستیں جاری کردیں جس کے مطابق قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان صدارتی انتخاب کے روز ووٹ ڈالیں گے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کی تعداد 1174 ہے تاہم صدارتی انتخاب میں 1121 ارکان پارلیمنٹ ووٹ کاسٹ کر سکیں گے جب کہ 53 نشستیں خالی ہیں۔میڈیا رپورٹ 4 ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب کے لیے تحریک انصاف کے پاس سب سے زیادہ 251 ووٹ ہیں جب کہ مسلم لیگ (ن)کے پاس 146 اور پیپلز پارٹی کے پاس 116 ووٹ ہیں۔
صدارتی انتخاب کے لیے پارلیمنٹ (قومی اسمبلی و سینیٹ)سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں میں ووٹنگ ہوگی، قومی اسمبلی، سینیٹ اور بلوچستان اسمبلی کے اراکین کے ایک ایک ووٹ ہوں گے۔ دیگر تین صوبائی اسمبلیوں(پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ)میں ووٹوں کا تناسب بلوچستان اسمبلی کے ووٹوں سے نکالا جائے گا، یعنی سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں سیاسی جماعتوں کے مجموعی ووٹوں کو 60 سے تقسیم کیا جائے گا۔اس فارمولے کے تحت پنجاب کے 5.7 ممبران کا ایک ووٹ تصور ہوگا۔
سندھ اسمبلی کے 2.58 ممبران اور خیبر پختونخواہ کے 1.9 ممبران اسمبلی کا ایک ووٹ شمار کیا جائے گا۔اس وقت قومی اسمبلی میں ارکان کی تعداد 330، سینیٹ میں 102، پنجاب اسمبلی میں 354، سندھ اسمبلی میں 165، خیبرپختونخوا اسمبلی میں 111 اور بلوچستان اسمبلی میں اراکین کی تعداد 60 ہے۔اس طرح وفاقی پارلیمان اور تمام صوبائی اسمبلیوں میں کل ارکان کی تعداد 1124 اور صدارتی انتخاب کے لیے ووٹ 676 ہیں۔عددی اعتبار سے تحریک انصاف کو دیگر جماعتوں پر برتری حاصل ہے۔
پی ٹی آئی کے قومی اسمبلی میں 151 ارکان ہیں اس طرح اس کے پاس صدارتی امیدوار کے 151 ووٹ ہیں جب کہ سینیٹ میں تحریک انصاف کے 12 ارکان اور 12 ووٹ ہیں۔پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد 175 اور ووٹ 30.66، سندھ اسمبلی میں 29 ارکان اور ووٹ 11.22، خیبرپختونخوا اسمبلی میں 74 ارکان اور ووٹ 38.79 جب کہ بلوچستان اسمبلی میں 7 ارکان اور ووٹ بھی سات ہیں۔اس طرح تحریک انصاف کے کل ارکان 448 ہیں اور اس کے پاس صدارتی امیدوار کے لیے 251 ووٹ ہیں۔
مسلم لیگ (ن)کے قومی اسمبلی میں اراکین کی تعداد 81 اور سینیٹ میں 33 ہے، اس طرح دونوں ایوانوں میں اس کے مجموعی ووٹوں کی تعداد 114 ہے۔(ن)لیگ کے پنجاب اسمبلی میں 159 اراکین ہیں اور ووٹ 27.85، خیبرپختونخوا اسمبلی میں 6 اراکین اور ووٹ 3.14، بلوچستان اسمبلی میں ایک رکن اور ایک ووٹ جب کہ سندھ اسمبلی میں (ن) لیگ کا کوئی رکن نہیں اس لیے ووٹ بھی کوئی نہیں۔اس طرح مسلم لیگ (ن)کے کل ارکان کی تعداد 280 ہے اور اس کے پاس صدارتی انتخاب میں اپنے نامزد امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے 146 ووٹ ہیں۔
پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی میں 54 اور سینیٹ میں 20 ارکان ہیں، یوں اس کے پاس پارلیمنٹ میں صدارتی امیدوار کے 74 ووٹ ہیں۔سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے 97 اراکین اور ووٹ 37.52، پنجاب اسمبلی میں 7 اراکین اور ووٹ 1.22، خیبرپختونخوا اسمبلی میں 5 اراکین اور ووٹ 2.62 جب کہ بلوچستان اسمبلی میں کوئی رکن نہیں۔اس طرح پیپلز پارٹی کے پاس پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں اراکین کی کل تعداد 183 اور صدارتی ووٹ 116 ہیں۔
مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے قومی اسمبلی میں 15 اور سینیٹ میں 6 اراکین ہیں اس طرح صدارتی امیدوار کے لیے پارلیمنٹ میں اس کے پاس 21 ووٹ ہیں۔خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایم ایم اے کے 13 اراکین اور ووٹ 6.81، بلوچستان میں 10 اراکین اور 10 ووٹ، سندھ اسمبلی میں ایک رکن اور 0.38 ووٹ جب کہ پنجاب اسمبلی میں کوئی رکن نہیں۔یوں قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں متحدہ مجلس عمل کے کل ارکان کی تعداد 45 اور اس کے پاس 38 ووٹ ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کے قومی اسمبلی میں 7 اراکین اور سینیٹ میں 5 ارکان ہیں اور یوں اسے پارلیمنٹ میں 12 ووٹ ہیں جب کہ سندھ اسمبلی میں 21 ارکان کے ساتھ اس کے پاس 8.12 ووٹ ہیں۔ایم کیو ایم کی پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان اسمبلی میں کوئی نمائندگی نہیں اور اس کے کل اراکین کی تعداد 33 اور ووٹ 20 ہیں۔بلوچستان عوامی پارٹی کی قومی اسمبلی میں 5 اور بلوچستان اسمبلی میں 24 نشستیں ہیں، اس طرح اس کے پاس کل ووٹ 29 ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی کی سینیٹ، سندھ، خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلی میں کوئی نمائندگی نہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)کی قومی اسمبلی میں 4 اور سینیٹ میں ایک نشست ہے، دونوں ایوانوں کے مجموعی ووٹ 5 بنتے ہیں اور اگر بلوچستان اسمبلی کے 9 ارکان کے ووٹوں کو بھی شامل کیا جائے تو بی این پی مینگل کو حاصل مجموعی ووٹوں کی تعداد 14 بنتی ہے۔جے ڈی اے کے قومی اسمبلی میں 3 اور سینیٹ میں ایک رکن ہے جب کہ سندھ اسمبلی میں اس کے ارکان کی تعداد 14 اور ووٹ 5.41 ہیں، یوں جے ڈی اے کے کل ارکان 18 اور صدارتی امیدوار کو دینے کے لیے مجموعی ووٹ 9 ہیں۔مسلم لیگ(ق)کی قومی اسمبلی میں 3 نشتیں ہیں جب کہ پنجاب اسمبلی میں 10 نشستیں اور 1.75 ووٹ، اس طرح ق لیگ کے کل ارکان 13 اور ووٹ 4 ہیں۔
اے این پی کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ایک ایک نشست ہے جب کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں 8 نشستیں اور 4.19 ووٹ اور بلوچستان اسمبلی میں 4 ارکان اور 4 ہی ووٹ ہیں۔یوں اے این پی کے کل ارکان 14 اور ووٹ 10 ہیں۔جمہوری وطن پارٹی کی قومی اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی میں ایک ایک نشست ہے اور کل دو نشستوں کے ساتھ اس کے پاس صدارتی امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے دو ووٹ ہیں۔قومی اسمبلی میں آزاد اراکین کی تعداد 4، سینیٹ میں 14، پنجاب اسمبلی میں 2 اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں 5 ہے۔
یوں پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں آزاد اراکین کی کل تعداد 25 بنتی ہے جن کے کل ووٹ 19 ہوں گے۔پختونخوا میپ کے سینیٹ میں 4 اور بلوچستان اسمبلی میں ایک رکن ہے اس طرح اس کے کل اراکان 5 اور کل ووٹ بھی 5 ہی ہیں۔نیشنل پارٹی کے سینیٹ میں 5 اراکین ہیں اس کے پاس ووٹ بھی 5 ہی ہیں۔بی این پی عوامی کی بلوچستان اسمبلی میں 2 نشستیں ہیں اور اس کے پاس صدارتی امیدوار کو دینے کے لیے بھی دو ووٹ ہیں۔
ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی اور عوامی مسلم لیگ کے پاس بھی ایک ایک ووٹ ہے جب کہ سندھ اسمبلی میں تحریک لبیک کے 2 اراکین ہیں اور ان کے ووٹ کا تناسب 0.07 بنتا ہے۔قومی اسمبلی میں اس وقت 342 میں سے 330 ارکان موجود ہیں اور 12 سیٹیں خالی ہیں، اس طرح 330 میں 176 ارکان پی ٹی آئی اتحاد، 150 اپوزیشن اتحاد اور 4 آزاد ارکان ہیں۔سینٹ میں 68 ارکان کا تعلق اپوزیشن اتحاد سے ہے، 25 کا تعلق پی ٹی آئی اتحاد سے جبکہ 11 ارکان آزاد ہیں۔یوں وفاقی پارلیمان میں پی ٹی آئی اتحاد کو 201 اور اپوزیشن اتحاد کو 218 ووٹ حاصل ہیں جبکہ 15 ارکان آزاد ہیں۔یوں اپوزیشن کی تقسیم سے تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر عارف علوی کی کامیابی یقینی ہے، اگر اپوزیشن نے ایک امیدوار پر اتفاق کیا تو حکمراں جماعت کے لیے اپنا صدر لانے میں مشکل پیش آسکتی ہے۔