اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)چند روز قبل اپنی سکیورٹی پر مامور سپیشل یونٹ کے اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنانے اورسرکاری گاڑی پر پینٹ کئے گئے پاکستانی جھنڈے کی بے حرمتی کرنے والے چینی انجینئرز کو ملک بدر کر دیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق چند روز قبل سی پیک پر کام کرنے والے چینی انجینئرز کا اپنی حفاظت پر مامور سپیشل یونٹ کے پولیس اہلکاروں سے جھگڑاہوا تھا۔
نوبت ہاتھ پائی تک جاپہنچی تھی۔نجی ٹی وی کے مطابق کبیروالا میں سی پیک میں شامل ایم فور موٹروے نور پورسائٹ پر پولیس اور چینی باشندوں میں جھگڑا ہوا تھا۔ چینی شہریوں نے بغیر سیکورٹی کیمپ سے باہر جانے کی کوشش کی تو پولیس نے ان کی حفاظت کے پہلو سے انہیں روکا۔ اس پر چینی باشندے برہم ہوگئے۔اس دوران غیر ملکیوں اور پولیس میں ہاتھا پائی ہوئی۔ پراجیکٹ انجینئرڈینی نے پولیس اسکواڈ کے انچارج لطیف کو کرسی اٹھا کر ماردی جب کہ ایک چینی باشندہ پولیس موبائل پر چڑھ کر کھڑا ہوگیا۔ پولیس وین پر پاکستان کا جھنڈا بھی پینٹ کیا گیا تھا جس کا چینی انجینئر نے لحاظ نہ کیا اور گاڑی کے بونٹ پر چڑھ گیا جس سے پاکستانی جھنڈے کی بے حرمتی بھی ہوئی۔ چینی ملازمین نے پولیس کیمپ کی بجلی بھی کاٹ دی۔پولیس نے صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے چینی شہریوں کو کیمپ میں بند کرکے باہر سے تالے لگادیئے۔ اسسٹنٹ کمشنر کبیروالہ اور ڈی ایس پی موقع پر پہنچ گئے اور بات چیت کرکے معاملے کو حل کرنے کی کوشش کی۔ تاہم چینی ملازمین نے مذاکرات سے انکار کردیا۔چینی انجینئرز اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھگڑے کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پاکستان میں فیصل آباد سے ملتان تک بننے والی ایم فور موٹروے پر کام کرنے والیایک تعمیراتی کمپنی سنکیانگ بیژن روڈ اینڈ بریج کمپنی کے نور پور کے مقام پر واقع کیمپ میں بدھ کے
روز پولیس کے سپیشل پروٹیکشن یونٹ کے اہلکاروں کے ساتھ ہونے والے جھگڑے کی ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد حکام کی جانب سے پولیس کو معاملے کی چھان بین کی ہدایت کی گئی تھی۔ویڈیو میں دیکھا جا سکتا تھا کہ چینی باشندے پولیس کے اہلکاروں کو مکے اور گھونسے رسید کر رہے ہیں. ان کو پولیس کے گاڑی پر چڑھتے بھی دیکھا جا سکتا ہے اور ان میں سے ایک نے پولیس اہلکار پر
کرسی بھی پھینکی۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے خانیوال کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر رضوان عمر گوندل نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس کے گاڑی پر چڑھنے والے شخص چینی کمپنی کا کنٹری پراجیکٹ منیجر یُو لبنگ تھے. ’ان سمیت پانچ چینی باشندوں کو واقعہ کا ذمہ دار پایا گیا اور اعلیٰ حکام کو ان کی ملک بدری کی سفارش کی گئی ہے.‘ ان کا کہنا تھا
شہباز نامی پولیس اہلکار کے خلاف چینی باشندے سے موبائل فون چھیننے پر کارروائی کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے. ان کی سفارشات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس واقعہ کے بعد سپیشل پروٹیکشن یونٹ کے کیمپ میں تعینات تمام پرانے عملے کو نئے عملے سے بدل دیا جائے. ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر رضوان عمر گوندل کا کہنا تھا کہ ’چینی کمپنی کے ملازمین اور پولیس اہلکاروں کے
درمیان جھگڑا اس وقت ہواجب کسی بات پر ناراض ہو کر چینی ملازمین نے سپیشل پروٹیکشن یونٹ کے کیمپ کی بجلی اور پانی کاٹ دی. پولیس اہلکاروں کو رات گرمی اور مچھر سے مقابلہ کرتے گزری صبح جب چینی ملازمین کام پر جانے کے لیے کیمپ سے نکلنے لگے تو پولیس اہلکاروں نے گیٹ بند کر دیا. پولیس اہلکاروں کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے کیمپ میں بجلی اور پانی موجود نہیں تھا
اس لیے وہ ڈیوٹی کے لیے تیار نہیں ہو پائے.چینی ملازمین ایس پی یو کے اہلکاروں سے اس بات پر ناراض ہوئے تھے کہ ایک روز قبل انھوں نے کیمپ پر موجود نجی سکیورٹی کمپنی کے ان ملازمین کا اسلحہ اپنے پاس جمع کر لیا تھا جو چینی کمپنی سے گذشتہ چند ماہ کی تنخواہ کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ناراض ہو کر چلے گئے تھے۔ پولیس کے مطابق ایم فور موٹروے پر کام کرنے والی
اس چینی کمپنی نے کئی مقامی ٹھیکہ داروں کوان کے معاوضے کی رقوم کی ادائیگی نہیں کر رکھی اور پولیس کے خیال میں یہ ایسا کرنا از خود ان کی حفاظت کے لیے چیلنج ہو سکتا ہے. ان کا کہنا تھا کہ جن چینی باشندوں کو ملک بدر کرنے کی سفارش کی گئی ہے وہ ماضی میں بھی جھگڑوں اور دوسروں کو اکسانے جیسے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں. انھوں نے جھگڑے کے بعد ان سے
بات چیت کرنے کے لیے آنے والے پولیس افسران سے ملاقات کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔دوسری جانب معروف کالم نگار عدنان خان کاکڑ نے اپنے کالم میں انکشاف کیا ہے کہ چینی انجینئرز اور پولیس اہلکاروں میں جھگڑا لڑکیوں کے چکر کی وجہ سے پیش آیا۔ معروف کالم نگار عدنان خان کاکڑ نے اپنے کالم میں لکھا کہ چار اپریل 2018 کو چند فرض شناس چینی ورکرز کو کام
کرنے سے روکا گیا تو سوشل میڈیا اس پر ایسے احتجاج کرنے میں مصروف ہو گیا ہے جیسے یہ بھی ریمنڈ ڈیوس ٹائپ آقا ہوں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہم آپ کے سامنے پورا واقعہ رکھتے ہیں اس کے بعد آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ الزام چینیوں کو دینا چاہیے، پولیس کو یا قسمت کو۔ہم نے جو تحقیق کی ہے اس میں پولیس اور چینیوں دونوں کا موقف معقول لگا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ منگل
کی رات چینیوں نے ضد کی کہ وہ بازار حسن جانا چاہتے ہیں۔ پولیس نے ان کی حفاظت کے پیش نظر منع کیا کہ دیکھو کوئی بیماری لگوا بیٹھو گے پھر پردیس میں ہسپتال میں پڑے رہو گے۔ ادھر بازار حسن میں لفنگے بھی ہوتے ہیں، کوئی مار پیٹ نہ دے۔ اب چینی اس پر خفا ہو گئے۔ انہوں نے نہایت غم و غصے کا اظہار کیا کہ پولیس والے ان کو کام کرنے اور فرائض ادا کرنے سے روک رہے ہیں۔
حالانکہ دونوں فریق غور کرتے تو یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ چینی صرف مقامی روایات کے احترام میں جنگل میں منگل منانا چاہتے تھے اور پولیس والے ان کی صحت کی فکر میں ہلکان ہو رہے تھے اور انہیں روک رہے تھے۔ بہرحال چینی اتنے خفا ہوئے کہ کہنے لگے اگر تم ہماری شام رنگین نہیں ہونے دو گے تو ہماری آہ لگے گی اور تم بھی نہ سو پاؤ گے، رات بھر جاگ کر اختر شماری کرو گے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ اب اگر رات کو کسی نامعلوم مبینہ شخص نے پولیس کیمپ کی بجلی کاٹ دی تو اس کا الزام چینیوں کو نہیں دینا چاہیے بلکہ ان کی روحانیت کی تعریف کرنی چاہیے کہ انہوں نے کس صحت سے مستقبل کا حال بتایا اور پولیس اہلکاروں کی رات ان کی پیش گوئی کے مطابق جاگتے ہوئے اور مچھر مارتے ہوئے گزری۔ اب صبح سویرے پولیس والے تیار ہونے اٹھے تو پتہ چلا
کہ بجلی کے علاوہ پانی بھی نہیں ہے۔ وہ تیار ہونے کے لئے بھاگ دوڑ کرنے لگے۔دوسری طرف ہوا ایسا کہ کسی وجہ سے رات بھر چینیوں کے پاس بجلی پانی موجود رہے تھے اور وہ صبح سویرے ہی اٹھ کر تیار ہو گئے تھے۔ چینی ہیں اولے درجے کے فرض شناس فرض شناس۔ ضد کرنے لگے کہ رات کو بھی تم نے ہمیں کام نہیں کرنے دیا اور اب صبح بھی روک رہے ہو۔ ہم تو ہر صورت کام کریں گے۔
پولیس والوں کے ذمے کسی نے یہ فرض لگا دیا ہے کہ وہ چینیوں کو اکیلے کہیں نہ جانے دیں، کہیں ان کو طالبان بوری میں ڈال کر علاقہ غیر نہ لے جائیں۔چینیوں نے بہت ضد کی تو پولیس والوں نے ان کو احتیاط سے عمارت میں بند کر کے باہر تالے لگا دیے۔ چینی ورزش کے بہت شوقین ہیں اور مارشل آرٹس کے بھی۔ وہ بیکار بیٹھنا بھی نہیں جانتے۔ چنانچہ چینی کمپنی کے پراجیکٹ مینیجر یو لبنگ
بذات خود سب کو ورزش کرانے لگے۔ سب سے پہلے تو انہوں نے پاکستانیوں کی یہ غلط فہمی دور کی کہ جاپانی مشینری چینی مشینری سے بہتر ہوتی ہے۔ وہ چھلانگ مار کر پولیس کی ایک جاپانی گاڑی کے بونٹ پر چڑھ گئے اور خوب اچھل اچھل کر قوم سے ایک ولولہ انگیز خطاب کیا۔چند چینی بھائیوں نے یہ دیکھا کہ پاکستان بھائی تھک گئے ہیں تو پتہ نہیں کہاں سے کرسیاں لے لے کر آئے
اور پاکستانی بھائیوں کی طرف پورے جذبے سے پھینکیں کہ بھائی آپ سکون سے کرسی پر بیٹھ جائیں۔ اس کے بعد چینی بھائیوں نے پاکستانی پولیس والوں کو مارشل آرٹس کی مشق کرائی۔ خاص طور پر ککس اچھالنے اور بازو لہرا کر چاپس مارنے کی بار بار پریکٹس کرائی۔ ویسے تو پولیس اہلکار بھی ان کو پولیس کے روایتی طریقہ تفتیش سے روشناس کرا سکتے تھے جسے چینی تادیر یاد رکھتے
پر ان کے ہاتھ کسی نادیدہ رسی نے باندھ رکھے تھے۔بہرحال علم حرب کے اس دوستانہ تبادلے کو اگر کوئی مار پیٹ اور غنڈہ گردی قرار دے رہا ہے تو یہ مناسب بات نہیں ہے۔ اس معاملے کو سی پیک دشمن قوتوں نے اتنا زیادہ اچھالا ہے کہ حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی انکوائری کروانی پڑ گئی ہے۔ لیکن شکر ہے کہ پولیس نے دل پر کچھ نہیں لیا۔ بلکہ وہ چینی مارشل آرٹس سے اتنے زیادہ متاثر ہوئے ہیں
کہ انہوں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ چینی مارشل آرٹس کے پانچ ماہرین کو واپس چین بھیجا جائے تاکہ وہ ان فنون میں مزید مہارت حاصل کریں اور پاکستانی بھائیوں کو اور زیادہ سبق سکھائیں۔