لاہور (نیوز ڈیسک)سینئر صحافی و معروف کالم نگار رؤف کلاسرا نے اپنے کالم میں لکھا کہ لگتا ہے شریف خاندان اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہا ہے۔ دو ماہ کے اندر ہی پنجاب اور مرکز میں موجودہ حکومتیں ختم ہو جائیں گی اور نیا نگران وزیراعظم اور نگران وزیراعلیٰ آئے گا۔ اس وقت ہی خصوصی عدالت میں چلنے و الے مقدمات میں شریف خاندان کو کرپشن پہ سزاؤں کا فیصلہ ہو گا۔ یوں نگران حکومتیں آتے ہی‘ پنجاب میں دس سال اور مرکز میں پانچ سال بعد شریف خاندان کی حکومت ختم ہو گی۔
اگرچہ کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اگلا الیکشن بھی جیت سکتے ہیں‘ یا نگران حکومتیں ان کی مرضی کی بنیں گی جیسے 2013ء میں بنی تھیں۔ مرکز اور پنجاب میں مرضی کے لوگ نگران حکومت میں شامل ہوں گے کیونکہ آئین کے تحت اپوزیشن اور وزیراعظم یا وزیراعلیٰ نے مل کر نگران حکومتوں کے سیٹ اپ کو فائنل کرنا ہے۔ لیکن آئین کچھ اور بھی کہتا ہے۔ مان لیتے ہیں کہ نواز شریف کوشش کریں گے کہ وہ اپنی مرضی کا نگران وزیراعظم لائیں؛ تاہم قانون کے تحت آپ کو اپوزیشن لیڈر کی مرضی بھی لینا ہوتی ہے۔ اگر اپوزیشن لیڈر اپنی مرضی نہ دے تو پھر معاملہ ہاؤس کی چھ رکنی کمیٹی کے پاس چلا جاتا ہے اور اگر کمیٹی بھی ایک نام پر راضی نہ ہو تو پھر معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جاتا ہے۔ اب دیکھتے ہیں نواز شریف اپنی مرضی کا نگران وزیراعظم اس دفعہ لا سکیں گے یا نہیں؟میرا خیال ہے کہ یہ مشکل اور بالکل ناممکن ہوگا۔ سینئر صحافی رؤف کلاسرا نے اپنے کالم میں مزید لکھا کہ نواز شریف نے دس برس بعد اپنی چودہ سالہ سزا معاف کرائی اور اپنی اکیس سال کی پابندی کو ختم کرا کے نیب کو ہرجانے کے طور پر ادا کیے گئے چالیس کروڑ روپے بھی خاموشی سے واپس لیے‘ جس کا آج تک کسی کو پتا نہیں چلنے دیا گیا۔ یوں سب حالات نواز شریف اور شہباز شریف کے حق میں تھے۔ اس طرح سب ہاؤس آف شریف کو واپس اقتدار میں لانے کے لیے اکٹھے ہو گئے تھے۔ اور جیسے وہ چاہتے تھے وہی نتائج حاصل کیے گئے۔
میرے اپنے ضلع لیّہ میں نواز لیگ کے ایم این ایز اور ناخواندہ ایم پی اے کو رات گئے گھروں سے اٹھا کر بتایا گیا کہ وہ جیت گئے ہیں حالانکہ کچھ تو اپنی ہار مان کر سو چکے تھے۔ آپ پوچھیں گے کہ اب کون سی نئی قیامت گزر گئی ہے کہ حالات شریف خاندان کے خلاف ہیں؟ میرا خیال ہے کہ آپ سب جانتے ہیں کہ کیا کچھ بدل گیا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ عمران خان کے دھرنوں نے نواز شریف کا خوف قوم کے دلوں سے ختم کر دیا ہے۔ ان پانچ برسوں میں نئی نسل سامنے آئی ہے جسے پہلی دفعہ پاناما لیکس سے پتا چلا کہ شریف خاندان نے کتنی کرپشن کی ہے اور دنیا کے کن کن براعظموں میں ان کی جائیدادیں ہیں۔
ملک کے وزیراعظم دبئی میں پارٹ ٹائم نوکری کرتے پکڑے گئے۔ نوجوان نسل کو پہلی دفعہ پتا چلا کہ سیاست خدمت کے لیے نہیں بلکہ ذاتی لوٹ مار کے لیے کی جاتی ہے۔ نواز شریف کو دھچکا لگا کہ جنہیں انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا وہ ان کے ساتھ نہیں رہے۔ سوال یہ ہے اس میں قصور کس کا ہے؟ جس طرح نواز شریف نے اداروں پر حملے کیے ہیں‘ اس کے بعد ان کا کوئی بھی‘ خواہ وہ کتنا ہمدرد ہی کیوں نہ ہو‘ ان کا دفاع نہیں کر سکتا۔پانسہ پلٹ چکا۔ شریف خاندان جنرل مشرف کے مارشل لاء سے بچ کر دوبارہ اقتدار میں آ گیا تھا لیکن اب جو ماحول بن چکا ہے اور عمران زرداری الائنس‘ جس تیزی سے شریف خاندان کی سیاست ختم کر رہا ہے‘ مجھے نہیں لگتا کہ شریف خاندان اس طوفان سے نکل پائے گا۔
جنہوں نے شریف خاندان کو پہاڑ پر چڑھایا تھا، وہی اب نیچے اتارنے کا بندوبست کر رہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں مکافاتِ عمل۔چیف جسٹس نے کہا ہے کہ اس دفعہ تاریخ کے شفاف الیکشن ہوں گے‘ اس پر غور کریں۔ مطلب اب پنجاب کی بیوروکریسی‘ جو کرپشن پر نیب کے ہاتھوں گرفتار ہو رہی ہے، اور پریزائیڈنگ افسران کو دھاندلی نہیں کرنے دی جائے گی۔ سب جانتے ہیں یہ امپائر ملائے بغیر میچ جیت نہیں سکتے اور اب کی دفعہ امپائرز نیوٹرل رہیں گے۔ جب دو بڑے امپائرز ہی شریف خاندان کے خلاف ہو چکے ہیں تو پھر پیش گوئی کرنا کون سا مشکل کام ہے کہ ان کا اقتدار ختم ہوا۔اقتدار کا ہما بھلا کب ایک جگہ ٹکتا ہے۔ اس کے اڑنے کا وقت ہوا ہی چاہتا ہے۔