لاہور (نیوزڈیسک) چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے غیر معیاری اشیاء خوردونوش کے حوالے سے بھی کیس کی سماعت کی ۔ ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی نورالامین مینگل کی جانب سے بتایا گیا کہ غیر معیاری اشیاء خوردونوش کو ٹیمیں مکمل چیک کررہی ہیں۔ تاہم چیف جسٹس نے رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار ہدایت کی کہ ہوٹلوں کا معیار چیک کیا جائے اور وہاں آئل ، فرائی فش سمیت دیگر کھانے چیک کیے جائیں ۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ نے مرغیوں کو دی جانے والی خوراک سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔چیف جسٹس نے کہا کہ عورتوں اور بچوں میں چکن کے استعمال سے ہارمونز میں تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں۔عدالتی معاون نے بتایا کہ مرغیوں کی بنائی جانے والی خوراک میں قدرتی اجزاء شامل کرنے سے ہارمونز میں زیادہ فرق نہیں پڑتا۔جس پر عدالت نے نمونوں کے ٹیسٹ کے لئے تین رکنی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے کہا کہ کمیٹی پولٹری فارمز سے مرغی اور اس کی خوراک کے نمونے حاصل کر کے ٹیسٹ کروائے ۔ٹیسٹ رپورٹ سے پتہ چل جائے گا کہ چکن میں کون سے مضر صحت ہارمونز موجود ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے مرغیوں کو دی جانے والی خوراک اور بازار میں فروخت ہونے والے چکن کے نمونوں کے ٹیسٹ کروانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی ۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے صاف پانی سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کو آج ( اتوار ) طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ لاہور تو پنجاب کا دل ہے اور دل میں کیا پھینکا جا رہا ہے، اگر صوبائی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو باقی شہروں کی کیا حالت ہوگی، آلودگی کے معاملے پر وزیراعلی سندھ کو طلب کر سکتے ہیں تو وزیراعلی پنجاب کو کیوں نہیں؟،شہباز شریف عدالت میں پیش ہو کر وضاحت پیش کریں کہ گندے پانی کی نکاسی کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔
عدالتی معاون عائشہ حامد نے عدالت میں رپورٹ پیش کی جس میں صرف لاہور شہر میں 540ملین گیلن پانی راوی میں پھینکنے کا انکشاف کیا گیا اور بتایا گیا کہ 480ملین گیلن سیوریج اور 60 ملین گیلن دیگر ذرائع سے آلودہ پانی راوی میں گرایا جا رہا ہے جس سے راوی آلودہ ہوتا جا رہا ہے ۔ عدالت نے اس صورتحال پر سخت اظہار برہمی کرتے ہوئے قرار دیا کہ لاہور تو پنجاب کا دل ہے دل میں کیا پھینکا جا رہا ہے۔ اگر صوبائی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو باقی شہروں کی کیا حالت ہو گی۔
عدالت نے قرار دیا کہ یہ تخت لاہور ہے یہاں کیا ہو رہا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب وضاحت پیش کریں کہ گندے پانی کی نکاسی کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں ،اگر آلودگی کے معاملے پر وزیر اعلیٰ سندھ کو طلب کر سکتے ہیں تو وزیراعلیٰ پنجاب کو کیوں نہیں ۔عدالت نے چیف سیکرٹری پنجاب کو ہدایت کی کہ وہ خادم اعلیٰ سے پوچھ کر بتائیں کہ وہ کب پیش ہو سکتے ہیں۔عدالت نے پنجاب حکومت کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک راوی پر فلٹریشن پلانٹ ہی نہیں لگایا گیا ،
مستقبل میں اگر اس منصوبے پر عمل ہو بھی گیا مگر ماضی میں اس پر عمل درآمد نہ کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اس کا تعین عدالت کرے گی۔وقفے کے بعد چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن (ر) زاہد سعید نے دوبار پیش ہوکر فاضل عدالت کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب بادشاہی مسجد میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے آج پیش نہیں ہو سکتے ،وزیر اعلیٰ اتوار کو 11بجے سپریم کورٹ میں پیش ہو جائیں گے ۔ جس پر فاضل عدالت نے کیس کی سماعت آج ( اتوار ) صبح 11بجے تک ملتوی کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو پیش ہونے کی ہدایت کر دی ۔
علاوہ ازیں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ نے پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کے حوالے سے بھی سماعت کی ۔ اس موقع پر چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن (ر) زاہد سعید اور ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی نورالامین مینگل سمیت دیگر پیش ہوئے ۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ غیر معیاری پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کے حوالے سے کیا اقدامات کیے گئے ہیں ؟۔ جس پر ڈی جی فوڈ اتھارٹی نورالامین مینگل نے بتایا کہ اس حوالے سے بہت سارے اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔
دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ 1148ایسی کمپنیاں ہیں جو پانی فروخت کررہی ہیں اور انہوں نے لائسنس کے لئے اپلائی کررکھا ہے اور ان کے پانی کا معیار چیک کرنے کیلئے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔جس پر فاضل عدالت نے قرار دیا کہ 1148 پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کی ایک بڑی تعداد ہے مگر ان کے پانی کا معیار چیک کرنے کے لئے ابھی تک کچھ نہیں کیا گیا ۔چیف جسٹس نے آلودہ پانی پینے سے عوام کے پیچیدہ بیماریوں کا شکار ہونے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صاف پانی سمیت دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن حکومت اپنی ذمے داری پوری نہیں کررہی ،
لوگ آلودہ پانی پینے سے پیچیدہ بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں ۔ جبکہ 1148سے زائد پانی فروخت کرنے والی کمپنیاں کس طرح بغیر لائسنس چل رہی ہیں،بتایا جائے کہ کتنی کمپنیاں کب سے کام کر رہی ہیں اور کتنی کو لائسنس جاری ہوئے ۔فوڈ اتھارٹی کی طرف سے بتایا گیاکہ غیر معیاری پانی کے نمونے لیے ہیں ۔ جس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ فوڈ اتھارٹی سے پہلے بھی پانی فروخت کرنے والی کمپنیاں بنیں ، حکومتی ذمہ داری تھی کہ کمپنیوں کا معیار چیک کرتی ۔ چیف سیکرٹری دیکھیں کہ 50روپے میں پانی کی بوتل کیس معیار کی ہے ۔سپریم کورٹ نے چیف سیکرٹری پنجاب سے پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کے حوالے سے رپورٹ ایک ہفتے میں طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی ۔