اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے پاکستان پینل کوڈ میں بچوں کے ساتھ جنسی ہراساں کرنے والے مجرمان کو عوامی سطح پر پھانسی دینے کے لیے قانون میں ترمیم کے معاملے کی مخالفت کردی۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کی جانب سے پیش کیے جانے والے ترمیمی بل کریمنل لاء امینڈمنٹ ایکٹ 2018 میں پاکستان پینل کوڈ ایکٹ 1860 کے سیکشن 364-اے 14 سال سے کم عمر کے بچوں کا اغوا ء اور قتل کے حوالے سے بتاتا ہے۔
سیکشن 364- اے کے مطابق جس شخص نے 14 سال سے کم عمر افراد کو اغوا ء کیا اور اس کا قتل یا خواہشات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا تو ایسے شخص کو موت کی سزا دی جائے گی۔نجی ٹی وی کے مطابق سینیٹ کمیٹی کی جانب سے پیش کی گئی ترمیم میں اس قانون میں ایسے شخص کو عوامی سطح پر سزائے موت دینے کا کہا گیا تھا۔خیال رہے کہ پیش کیے گئے ترمیمی بل کی سینیٹ کمیٹی کے کچھ اراکین کی جانب سے بھی مخالفت کی گئی تھی۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سینیٹ کمیٹی میں پیش کیے گئے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرعام پھانسی دینے کے تصور سے خوف آتا ہے، سابق آمر جنرل ضیاالحق نے ایک شخص کو لاہور میں سرعام پھانسی پر لٹکایا تھا اب ایک مرتبہ پھر ہمیں ضیا کے دور میں واپس نہیں جانا چاہیے۔انہوں نے کہا تھا کہ قانون میں تبدیلی کردی تو پھر یہ سلسلہ نہیں رکے گا اور ہر ایک کو پھانسی پر لٹکانے کی آوازیں آئیں گی۔قومی اسمبلی کی کمیٹی کے چیئرمین بابر نواز خان کا کہنا تھا کہ تجویز کی گئی ترمیم کی کمیٹی کی جانب سے مخالفت کردی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ کسی آمر کا دور نہیں بلکہ ایک جمہوری دور ہے اور جمہوری دور میں کسی کو چوراہے پر نہیں لٹکایا جا سکتا۔ان کا کہنا تھا کہ سرعام چوراہوں پر لٹکانے کے بجائے قانون سازی کی ضرورت ہے۔یاد رہے کہ قصور میں سات سالہ بچی زینب کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والے ملزم کو سر عام پھانسی دینے کا مطالبہ سامنے آیا تھا ۔