کوئٹہ (این این آئی ) بلوچستان کا نیا وزیراعلی کون ہوگا بدھ کے روز مسلم لیگیوں کے خفیہ مقامات پر اہم اجلاس منعقد ہوتے رہے اب تک کسی بھی مسلم لیگی رکن صوبائی اسمبلی کے نام پر وزاراعت اعلی کے منصب کیلئے فیصلہ نہیں ہوسکا اب تک سابقہ وزیرداخلہ اور رکن صوبائی اسمبلی مسلم لیگ (ن) میر سرفراز بگٹی ،سابق نگراں وزیراعلی اور مسلم لیگ (ن) کے رکن صوبائی اسمبلی سردار صالح بھوتانی ،سابقہ ڈپٹی اسپیکر اور مسلم لیگ ق
کے رکن صوبائی عبدالقدوس بزنجواور سابقہ اسپیکر اور مسلم لیگ (ن) کے رکن صوبائی اسمبلی میر جان محمد جمالی کے ناموں میں سے ایک نام کی منظوری دی جائے گی میر جان محمد جمالی سینیٹ کے انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی صدر اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ناراض ہے انہوں نے اپنے نجی ٹی سے بات چیت میں واضح کیاہے کہ بلوچستان کا آئندہ کا نیا وزیراعلی نواز شریف کا نہیں ہوگا بلکہ ہماری مرضی کا ہوگا کیونکہ ہمیں پہلی بار صوبائی خودمختیاری ملی ہے اور ہم اسکا صحیح استعمال کرینگے اور ہم اپنے فیصلے خود کرینگے اور کسی کا دباؤ قبول نہیں کرینگے ۔دریں اثناء سابق وزیراعلی بلوچستان رکن صوبائی اسمبلی اور چیف آف جھالاوان نواب ثناء اللہ زہری نے بدھ کے روز مصروف ترین دن گزار تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعلی بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کیخلاف 2جنوری کو مسلم لیگ ق،اے این پی ،جمعیت علماء اسلام (ف)، مجلس وحدت المسلمین اور مسلم لیگ (ن) کے ناراض ارکان نے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تھی جس کے بعد کافی صلاح ومشورے اور مذاکرات کے بعد بھی اپوزیشن نے تحریک واپس نہیں لی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اچانک کوئٹہ کا دورہ کیا اور ایک رات کوئٹہ میں قیام کیا اوروزیراعظم نے ناراض ارکان سے اپنے موبائل فون کے ذریعے رابطے کئے مگر اپوزیشن مسلم لیگ ق،اور ن کے ارکان نے ان سے بات تک نہیں کی
اور وہ ناکام دورے کے بعد منگل کو صبح ساڑھے آٹھ بجے اسلام آباد واپس چلے گئے جہاں پر انہوں نے پنجاب ہاؤس میں میاں محمد نواز شریف کو رپورٹ دی کہ وزیراعلی کے پاس حکومت بچانے کیلئے تعداد کم ہے اس لئے اگروہ خود استعفیٰ دے دیں تو مسلم لیگ (ن) کو آنیوالے سینیٹ اور عام انتخابات کے موقع پر فائدہ ہوگا یہ فورم چوبیس گھنٹے گزرنے کے باوجود ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ سابقہ وزیراعلی بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے پشتونخواملی عوامی اور نیشنل پارٹی سے مستعفی ہونے کے بارے میں کوئی صلاح و مشورہ کیا تھا یا وہ استعفیٰ دے دیں
اور آخر کار وزیراعلی بلوچستان نے 9جنوری کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کی بجائے انہوں نے اسمبلی اجلاس شروع ہونے سے پہلے دو گھنٹے قبل گورنر ہاؤس جاکر گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی کو اپنا استعفیٰ پیش کردیا ،اندرونی کہانی کے مطابق پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سابقہ صوبائی وزراء ،ارکان اسمبلی اور نیشنل پارٹی کے سابقہ صوبائی وزراء ارکان اسمبلی سابقہ وزیراعلی کا اسمبلی میں انتظارکررہے تھے ٹی وی پر بریکنگ نیوز چلنے کے بعد پشتونخواملی عوامی پارٹی کے وزراء ارکان اسمبلی اور اسی طرح نیشنل پارٹی کے ارکان اسمبلی فوری طورپر اسمبلی اجلاس سے اٹھ کر خاموشی سے چلے گئے بدھ کے روز بھی پشتونخواملی عوامی پارٹی کے کیمپ اور نیشنل پارٹی کے کیمپ میں یہ گلہ ہوتا رہا کہ سابق وزیراعلی بلوچستان نے مستعفی ہونے کا جب فیصلہ کیا تھا تو ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا ۔